1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی صدر اسد کم جونگ اُن سے ملنے شمالی کوریا جائیں گے

4 جون 2018

خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات کے لیے کمیونسٹ کوریا جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بات پیوینگ یانگ میں شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے بتائی۔

شامی صدر بشارالاسدتصویر: Reuters/Sana

شمالی کوریا کے حریف ملک جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کمیونسٹ کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اے نے بتایا کہ شامی صدر اسد نے کہا ہے، ’’میں ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا (شمالی کوریا) کا دورہ کرنے والا ہوں اور وہاں ملکی رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات کروں گا۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق شامی صدر اسد نے اپنے اچانک دورہ شمالی کوریا کا اعلان ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب یہ توقعات کافی زیادہ ہو چکی ہیں کہ شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین وہ تاریخی سربراہی ملاقات اب شاید واقعی عمل میں آ جائے گی، جس کے لیے کئی ہفتے قبل سنگاپور میں 12 جون کی تاریخ مقرر کی گئی تھی، اور جس کے بارے میں امریکی اور شمالی کوریائی رہنماؤں کے متعدد حالیہ بیانات کے باعث بار بار شبہات بھی پیدا ہو گئے تھے۔

دمشق میں شمالی کوریائی سفیر کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں صدر بشارالاسد نے کہا، ’’دنیا اس شاندار پیش رفت کا خیر مقدم کرتی ہے، جو جزیرہ نما کوریا کی صورت حال میں بہتری اور وہاں کشیدگی میں کمی کے حوالے سے کم جونگ اُن کی غیر معمولی سیاسی قیادت اور ان کی دانش مندی کی وجہ سے ممکن ہو سکی۔‘‘

شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات بارہ جون کو سنگاپور میں ہو گی

دمشق سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق شامی صدر اسد کے اس موقف کی تفصیلات شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی نے جاری کی ہیں لیکن خود شامی دارالحکومت میں صدر اسد کے دفتر نے اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

شام اور شمالی کوریا کے باہمی تعلقات میں عشروں سے گرمجوشی پائی جاتی ہے اور گزشتہ چند برسوں میں تو ان دونوں ریاستوں کے مابین مبینہ طور پر فوجی شعبے میں تعاون بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ان تعلقات پر بظاہر شام میں کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

پیونگ یانگ اور دمشق کے مابین کیمیائی ہتھیاروں کی مبینہ خرید و فروخت کے حوالے سے بھی ماضی میں کئی مرتبہ ایسی رپورٹیں سامنے آ چکی ہیں، جن میں جنوبی کوریا کے علاوہ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی یہ تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ دمشق اور پیونگ یانگ کے مابین کیمیائی ہتھیاروں کا لین دین ہو رہا تھا۔

م م / ع ا / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں