شامی صدر اسد کے مخالفین متحد ہو گئے
12 نومبر 2012شامی اپوزیشن پر شدید بین الاقوامی دباؤ تھا کہ وہ صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے ایک نیا اور وسیع تر اتحاد بنائے، جس میں شام کے تمام گروپوں کی نمائندگی ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے شامی اپوزیشن کے مختلف گروپوں کے چیدہ چیدہ رہنماؤں کے علاوہ عرب ممالک اور امریکی نمائندوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی دنوں تک مذاکرات کیے۔
اتوار کو دوحہ میں گزشتہ تین روز سے جاری مذاکرات کے اختتام پر شامی اپوزیشن نے تصدیق کر دی کہ سیریئن نیشنل کولیشن فار اپوزیشن اینڈ ریوولیوشنری فورسز نامی قومی ڈھانچہ جلا وطن حکومت کی تشکیل پر متفق ہو گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے شامی اپوزیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’شامی قومی اتحاد برائے حزب اختلاف اور انقلاب‘ نامی اس نئے اتحاد پر شام کے باغی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ منحرفین اور تمام نسلی اور اقلیتی گروپوں کے رہنماؤں نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
نیا اتحاد ضروری کیوں؟
اس نئے اتحاد کا قیام مغربی اور عرب ممالک کے اس دباؤ کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے کہ موجودہ شامی اپوزیشن گروپ ’شامی قومی کونسل‘ SNC صدر بشار الاسد اور ان کی حامی فورسز کے خلاف غیر مؤثر ہے۔
اس نئے اتحاد کے صدر معاذ الخطیب تین ماہ قبل دمشق سے فرار ہو کر قاہرہ پہنچے تھے۔ شام میں گزشتہ بیس ماہ سے جاری سیاسی بحران کے دوران اسد حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے اصلاحات پسند معاذ الخطیب کو کئی مرتبہ زیر حراست بھی رکھا گیا۔ وہ دمشق میں واقع مسلمانوں کی قدیم ترین مساجد میں شمار ہونے والی مسجد امیہ کے خطیب تھے۔
اس نئے اتحاد کے قیام کا منصوبہ تجویز کرنے والے ریاض سیف اور خاتون کارکن سھیر الاتاسی کو معاذ الخطیب کے نائبین بنایا گیا ہے۔ جمعے کو سیریئن نیشنل کونسل کے نئے صدر منتخب ہونے والے جارج صبرہ نے اس نئی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے روئٹرز کو بتایا کہ شامی حکومت کے خلاف اور آزادی کے حصول کے لیے یہ ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے ’قومی اتحاد برائے حزب اختلاف اور انقلاب‘ کے تینوں اعلیٰ عہدیداروں پر بھی اعتماد کا اظہار کیا۔
شام کے ایک تاجر مصطفیٰ الصباغ کو اس نئے اتحاد کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے۔ سفارتکاروں نے بتایا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں ایک کرد رہنما کو اس قومی ڈھانچے کا تیسرا نائب صدر چنا جا سکتا ہے۔
مستقبل کی حکمت عملی
شام کے سابق وزیر اعظم ریاض حجاب نے اس نئی پیشرفت کو اسد حکومت کے خاتمے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ وہ اگست میں حکومت سے منحرف ہو جانے کے بعد فرار ہو کر اردن پہنچ گئے تھے۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ حمد بن جاسم نے بھی اس نئے اتحاد کے قیام کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔ تاہم ان کے بقول یہ اتحاد کیسے کام کرتا ہے، یہ امر زیادہ اہم ہو گا۔
ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے اس نئے اتحاد کو تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اب شامی اپوزیشن منقسم نہیں رہی اور اسے مکمل حمایت کی ضرورت ہے۔
( ab /mm (AFP, Reuters