شامی صدر بشار الاسد، اہلیہ اسماء بھی کورونا وائرس سے متاثر
8 مارچ 2021
شامی صدر بشار الاسد اور ان کی اہلیہ اسماء فواز الاخرس بھی کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے ہیں۔ ملکی صدر اور خاتون اول کے کووڈ انیس کے مریض ہو جانے کی دمشق میں صدارتی دفتر نے بھی باقاعدہ تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
صدارتی دفتر کے آج پیر آٹھ مارچ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ سربراہ مملکت بشار الاسد اور ان کی اہلیہ کے کورونا ٹیسٹوں کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ بیان کے مطابق یہ ٹیسٹ اس وقت کیے گئے جب ان دونوں میں کووڈ انیس کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
بیان کے مطابق صدر بشار الاسد اور ان کی اہلیہ دونوں ہی سرکاری رہائش گاہ پر قرنطینہ میں رہیں گے اور آئندہ تقریباﹰ دو تین ہفتوں تک گھر سے ہی اپنے فرائض کی انجام دہی جاری رکھیں گے۔ سرکاری بیان کے مطابق 55 سالہ شامی صدر اور خاتون اول کی صحت اچھی ہے اور تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔
بشار الاسد کی اہلیہ اسماء فواز الاخرس ماضی میں چھاتی کے سرطان کی مریضہ بھی رہ چکی ہیں اور اس مرض سے ان کے مکمل طور پر صحت یاب ہونے کا باقاعدہ اعلان 2019ء میں کیا گیا تھا۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
15 تصاویر1 | 15
کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیز رفتار اضافہ
مشرق وسطیٰ کی کئی برسوں سے جنگ زدہ ریاست شام میں کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کی نگران ملکی مشاورتی کمیٹی کے ایک رکن نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ شام میں گزشتہ ماہ کے وسط سے کورونا وائرس کے پھیلاؤکی شرح میں یکدم بہت تیزی آ گئی تھی۔
دمشق میں ملکی وزارت صحت کے مطابق ایک ہفتہ قبل شام میں طبی شعبے کے صف اول کے کارکنوں کی کورونا وائرس کے خلاف ویکسینیشن بھی شروع کر دی گئی تھی۔ وزارت صحت نے اس بارے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس عرب ریاست میں اب تک کورونا وائرس تقریباﹰ 16 ہزار افراد کو متاثر کر چکا ہے جبکہ کووڈ انیس کی وجہ سے ہلاکتوں کی سرکاری تعداد 1063 بتائی جاتی ہے۔
حلب، جو کبھی شام کا ایک کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا، اب کھنڈرات پر مشتمل ایک صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسد کی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی نے ایک ہنستے بستے شہر کو کیسے بدل ڈالا ہے، اس کی ایک جھلک، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
بمباری کے ہولناک اثرات
جہاں حلب شہر کا ایک حصہ بدستور صدر بشار الاسد کی فوج کے کنٹرول میں ہے، وہاں باغی دوسرے حصے کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں جانب بے پناہ تباہی ہوئی ہے۔ اس تصویر میں شہر کا بنی زید نامی علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ourfalian
کھنڈرات کے پہاڑ
دُور دُور تک پھیلی اور قطار در قطار بنی رہائشی عمارات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر بمباری کے بعد امدادی کارکن ملبے تلے دب جانے والے انسانوں کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys
امدادی کارکن مسلسل مصروف
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے اسد کے فوجی دستوں کی جانب سے کیے جانے والے ایک حملے کے بعد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔ بعض اوقات امدادی کارکن خالی ہاتھوں سے ملبہ ہٹا کر لوگوں کو باہر نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Sultan
دھوئیں کے ساتھ اسد کی فوج کا مقابلہ
باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں حکومتی افواج کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً حلب کے مشہد نامی علاقے میں ٹائر جلائے جا رہے ہیں تاکہ دبیز دھواں حملہ آوروں کی دیکھنے کی صلاحیت کو کسی قدر محدود بنا سکے۔
تصویر: picture-alliance/AA/B. el Halebi
بے گھر لوگ سر پر چھت کی تلاش میں
سر پر چھت سے محروم ہو جانے والے شہری اپنے لیے کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بے گھر شہری خیموں میں ہی نہیں بلکہ تباہ شُدہ موٹر گاڑیوں میں بھی رات بسر کر لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
بھاگ کر آنے والوں کے لیے رہائشی مکانات
شامی حکومت نے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں بسنے والے شہریوں سے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ اُن علاقوں کو چھوڑ کر نکل آئیں۔ ایسے شہریوں کے لیے حلب شہر کے شمال میں نئی رہائشی عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP-Photo
مساجد بھی نشانہ
شام میں گزشتہ کئی سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران عبادت خانے بھی محفوظ نہیں رہے۔ شہر حلب کے قفر حمرہ نامی علاقے کی عمر بن خطاب مسجد کا حال اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/T. el Halebi
رات کو بھی سکون نہیں
رات کو بھی لڑائی جاری رہتی ہے۔ وقفے وقفے سے سیاہ دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حکومتی افواج کے اسلحے کے ایک گودام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kurab
کھنڈرات کے پاس ہی باغیچہ
اس ساری تباہی کے بیچوں بیچ اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی انسانوں کی مجبوری ہے مثلاً عبداللہ الکتماوی نے یہ ایک چھوٹا سا کچن گارڈن بنا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے استعمال کی سبزی ترکاری پیدا کر لیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. El Halabi
روٹی کے انتظار میں
شہر میں ایسے مناظر اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر حلب کے ایک شمالی علاقے کا ہے، جس پر باغیوں کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ روٹی جیسی بنیادی اَشیائے خوراک کے حصول کے لیے دیر تک قطاریں بنائے کھڑے رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Al-Masri
جنگ میں وقفہ
اس طرح کے جھولے شہر میں کبھی ایک جگہ دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری جگہ۔ یہ جھولے غنیمت ہیں کہ ان کی وجہ سے بچے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن جنگ کو بھول جاتے ہیں۔ یہ تصویر اس سال جولائی کے اوائل میں اُتاری گئی۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
جنگ کا کھیل
بچے جنگ کے مناظر کے عادی ہو چکے ہیں، اتنا زیادہ کہ وہ کھیل میں بھی جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں حلب شہر کے باغیوں کے زیر انتظام علاقے کے بچے پلاسٹک کے ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
گرجا گھرمیں عبادت
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کچھ ہی تباہ ہو چکا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کا یہ عبادت خانہ ابھی تک بمباری کا نشانہ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ اسی گرجا گھر میں حال ہی میں سینکڑوں نوجوانوں نے ورلڈ یوتھ کانگریس کا جشن منایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
13 تصاویر1 | 13
ایک عشرے سے جاری جنگ
شام مشرق وسطیٰ کی ایک ایسی ریاست ہے، جسے گزشتہ ایک دہائی سے خونریز خانہ جنگی کا سامنا ہے۔ اس جنگ میں اب تک لاکھوں انسان ہلاک اور کئی ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔
شام میں چند برس پہلے تک اسد حکومت کا اثر و رسوخ عملاﹰ بہت تھوڑے علاقے پر باقی رہ گیا تھا اور ملک کے زیادہ تر حصے دہشت گرد تنظیم داعش کے جہادیوں یا اسد حکومت کی مخالف باغی تنظیموں کے جنگجوؤں کے کنٹرول میں تھے۔
اب لیکن اپنے دو بڑے اتحادی ممالک روس اور ایران کی بھرپور عسکری مدد کے ذریعے اسد حکومت ملک کے زیادہ تر حصوں پر اپنا کنٹرول دوبارہ یقینی بنا چکی ہے۔
م م / ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔