1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی صدر سے ملاقات، پوٹن کی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر تشویش

25 جولائی 2024

شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ اس ملاقات میں روسی صدر پوٹن کا کہنا تھا، ’’بدقسمتی سے ہم (خطے میں کشیدگی) بڑھنے کا رجحان دیکھ رہے ہیں۔ اور یہی صورتحال شام میں بھی ہے۔‘‘

کریملن کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے شامی ہم منصب بشار الاسد کی ملاقات کی ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے
کریملن کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے شامی ہم منصب بشار الاسد کی ملاقات کی ایک ویڈیو جاری کی گئی ہےتصویر: Valeriy Sharifulin/IMAGO/SNA

ماسکو میں کریملن کی جانب سے جمعرات 25 جولائی کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے شامی ہم منصب بشار الاسد کی ملاقات کی ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے۔ کریملن کے مطابق دونوں صدور کی یہ ملاقات بدھ کے روز ہوئی، جس میں پوٹن نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔

صدر پوٹن کا شامی ہم منصب بشار الاسد کے ساتھ گفتگو میں کہنا تھا، ''مجھے خطے میں رونما ہوتی صورت حال کے بارے میں آپ کی رائے جاننے میں کافی دلچسپی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''بدقسمتی سے ہم (خطے میں کشیدگی) بڑھنے کا رجحان دیکھ رہے ہیں۔ اور یہی صورتحال شام میں بھی ہے۔‘‘

دوسری جانب صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ یوریشیائی خطے سمیت دنیا بھر کے حالات کے تناظر میں یہ ملاقات بہت اہم ہے۔

کریملن کی جانب سے اس ملاقات کی مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں، تاہم ممکن ہے کہ اس میں شام اور ترکی کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے بھی بات ہوئی ہو۔

کریملن کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے شامی ہم منصب بشار الاسد کی ملاقات کی ایک ویڈیو جاری کی گئی ہےتصویر: Valeriy Sharifulin/IMAGO/SNA

روس نے شام میں 2015ء سے ایک عسکری مہم کا آغاز کر رکھا ہے، جس کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کی مسلح شامی گروپوں کے خلاف لڑائی میں مدد کر کے ملک کے کئی مختلف حصوں پر دمشق حکومت کے مخالف باغیوں کا قبضہ ختم کرانا ہے۔ روس کے علاوہ صدر بشار الاسد کی حکومت کو ایران کی حمایت بھی حاصل ہے۔

رواں ہفتے کی ملاقات سے قبل ولادیمیر پوٹن اور بشار الاسد کی ملاقات پچھلے سال مارچ میں شام میں جاری خانہ جنگی کے بارہ سال مکمل ہونے کے موقع پر ہوئی تھی، جس میں صدر پوٹن نے شام میں استحکام کے لیے روسی فوج کے کردار پر زور دیا تھا۔

روس صدر بشار الاسد کی حکومت اور ترکی کے درمیان تعلقات کی بحالی کے حوالے سے بھی کوششیں کرتا رہا ہے۔

ترکی اور شام کے مابین تعلقات 2011ء میں شامی فورسز کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور تب سے شام میں جاری خانہ جنگی کے بعد سے منقطع ہیں۔

ترکی شام میں ان باغی گروپوں کا حامی ہے جو صدر بشار الاسد کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ شام کے کئی شمال مغربی علاقے اب بھی ان گروپوں کے قبضے میں ہیں۔

شام میں جاری روسی جنگ

02:59

This browser does not support the video element.

م ا ⁄ م م (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں