شامی صدر بشار الاسد کا متحدہ عرب امارات کا دورہ دراصل دمشق کا خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف ایک اشارہ ہے۔
اشتہار
شامی صدر بشار الاسد جب متحدہ عرب امارات پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ناقدین کے مطابق شام کی طویل خانہ جنگی کے بعد صدر بشار الاسد کی کوشش ہے کہ وہ بالخصوص عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لے آئیں۔ اس دورے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسد اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے ڈیفیکٹو حکمران ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان نے بشار الاسد کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ شام دراصل 'عرب سکیورٹی کا ایک اہم ستون ہے‘۔ دمشق میں صدر دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ بشار الاسد نے جمعہ 18 مارچ کو ابو ظہبی میں شیخ محمد بن زید الہیان سے ملاقات کی۔
شام میں سن 2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد بشار الاسد نے پہلی مرتبہ کسی خلیجی ملک کا دورہ کیا ہے۔ شامی خانہ جنگی کے دوران اسد نے صرف ایران اور روس کے ہی دورے کیے تھے جو شامی صدر کے انتہائی قریبی حلیف ممالک تصور کیے جاتے ہیں۔
ملاقات کیسی رہی؟
متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجسنی ڈبلیو اے ایم کے مطابق بشار الاسد اور شیخ محمد بن زید النہیان کی ملاقات تعمیری اور دوستانہ رہی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات بہتر بنانے پر گفتگو کی۔
شیخ محمد بن زید النہیان نے کہا کہ عرب ممالک کی سکیورٹی میں شام کا کردار اہم ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات دمشق حکومت کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔
نیوز ایجسنی ڈبلیو اے ایم نے شیخ محمد بن زید النہیان کے حوالے سے بتایا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ بشار الاسد نہ صرف شام بلکہ عللاقائی سطح پر پائیدار امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
15 تصاویر1 | 15
بشار الاسد نے متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن رشید المخطوم اور وزیر اعظم کے علاوہ دبئی کے حکمران سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر اسد کا کہنا تھا کہ علاقائی سطح پر متحدہ عرب امارات کا کردار انتہائی اہم ہے۔
اس تناظر میں شامی صدر بشار اسد نے اصرار کیا کہ علاقائی سالمیت، خودمختاری اور مفادات کے تحفظ اور اپنے عوام کی سلامتی کی خاطر تعاون میں اضافہ کیا جائے۔
عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش
متعدد عرب ممالک دمشق حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی و باہمی تعلقات میں بہتری لا چکے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ شام کو ایک مرتبہ پھر عرب ممالک میں با اثر حکومتوں کی صف میں لایا جائے۔
امریکہ کے قریبی حلیف ملک متحدہ عرب امارات نے فروری سن 2012ء میں شامی حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے جبکہ اس نے اسد مخالف باغیوں کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا، جو اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کی خاطر مسلح بغاوت میں شریک تھے۔
تاہم بدلتے ہوئے حالات کو بھانپتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے دسمبر سن 2018ء میں دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا جبکہ مارچ سن 2021ء میں شام کو عرب لیگ میں بھی واپس لانے کا اہم حامی بن گیا تھا۔
امریکہ شامی صدر بشار الاسد سے تعلقات بہتر بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ شامی صدر کے دورہ متحدہ عرب امارات پر بھی واشنگٹن حکومت کی طرف سے تنقید کی گئی ہے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بظاہر یہ اسد حکومت کو قانونی بنانے کی ایک کوشش ہے، جس سے اسے مایوسی ہوئی ہے۔ ایک بیان کے مطابق، ''ایسے ممالک جو اسد حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے خواہاں ہیں، وہ یہ مت بھولیں کہ اسد نے اپنے ہی شہریوں پر کیا ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔‘‘