شامی صدر کا مصالحتی منصوبہ حقیقت سے دور ہے، واشنگٹن
7 جنوری 2013
امریکی وزارت خارجہ نے شامی صدر بشا الاسد کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت سے دور ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسد کو فوری طور پر اقتدار سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا کہنا ہے کہ اسد کی تقریر اصل میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی ایک اور کوشش ہے اور یہ شامی عوام کی سیاسی تبدیلی کے مقصد کی جانب کسی پیش وفت کا اشارہ نہیں دیتی۔ نولینڈ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسد کی تقریر اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ مندوب کی امن کوششوں کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق شام کے صدر گزشتہ دو سالوں سے اپنے عوام پر ظالمانہ جبر روا رکھنے کے بعد اپنی جائز حکومتی اتھارٹی سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کو جلد از جلد اقتدار کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ شام میں جمہوری تبدیلی کے عمل کا آغاز ہو سکے۔
شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد نے بھی بشار الاسد کے مصالحتی پلان کو مسترد کر دیا ہے۔ شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد کے ترجمان ولید البنی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ مصالحتی پلان کو کسی طور تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
ولید البنی کا مزید کہنا تھا کہ قومی اتحاد شام کے تنازعے کا سیاسی حل چاہتا ہے لیکن اپوزیشن کے اس اتحاد کی تشکیل 60 ہزار شہدا پر نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی یہ قربانیاں ایک جابرانہ حکومت کی افزائش کے لیے ہیں، اس لیے شامی کسی طور ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد کے نائب صدر جورج صابرا نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اسد کی تقریر کا بنیادی مرکز حقائق سے دور ہے اور اسے کسی بھی طرح نیا نہیں کہا جا سکتا۔
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے شامی صدر کی تقریر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اصلاحات کے نام پر خالی وعدوں سے کسی کو اب مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ ہیگ کا مزید کہنا تھا کہ اسد کی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت شام موت، تشدد اور جبر کے شکنجے میں ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے کہا ہے کہ یونین اسد کی تقریر کے مندرجات کا بغور مطالعہ کر رہی ہے اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ شامی صدر نے کیا کچھ نیاکہا ہے لیکن شام کے معاملے پر یورپی یونین کا مؤقف واضح ہے کہ بشار الاسد کو حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے سیاسی تبدیلی کو راستہ دینا چاہیے۔
(ah / ab ( AFP, Reuters