1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی صدر کی تقریر اور ردعمل

31 مارچ 2011

عرب ملک شام کے صدر بشار الاسد نے بدھ کو پارلیمنٹ سے خطاب ضرور کیا لیکن توقعات کے برعکس کوئی بڑا اعلان سامنے نہیں آ سکا۔ ان کی تقریر پر امریکہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

تصویر: dapd

امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ نے شام کے صدر بشار الاسد کی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کے مطابق شامی صدر کی تقریر اندازوں کے برعکس تھی اور اس میں جمہوری، اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کا بڑے پیمانے پر کوئی احاطہ نہیں کیا گیا۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شام میں ایمرجنسی کے قانون کا خاتمہ اشد ضروری ہے۔ مستقبل میں شام کے مختلف شہروں میں ممکنہ پرتشدد مظاہروں پر امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

شامی صدر کی تقریر پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سرگرم کارکنوں کی جانب سے بھی مایوسی کا اظہار سامنے آیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے سینئر محقق ندیم حوری کے مطابق صدر اسد نے انتہائی مبہم انداز میں مستقبل کے سیاسی منظر کا احاطہ کیا ہے۔ حوری کے مطابق شفاف طریقے سے سیاسی اصلاحات کے لیے کسی وعدے کا اعلان نہیں کیا گیا اور اس پر عوام اور عالمی برادری کو مایوسی ہوئی ہے۔

شامی صدر بشار لاسد کی تقریر کا ملک کے اندر اور بیرونِ ملک بے صبری سے انتظار کیا گیا تھاتصویر: picture alliance/dpa

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے شعبہ کے ڈائریکٹر فلپ لوتھر کے مطابق شامی صدر نے اپنی تقریر میں اصلاحات کی ضرورت کو ضرور تسلیم کیا لیکن اس حوالے سے کوئی مثبت رویہ اپنانے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ لوتھر کے مطابق شامی صدر کی تقریر سے شامی عوام بھی یقینی طور پر ناخوش ہوں گے۔

شامی صدر کی تقریر کے چند گھنٹوں کے بعد بندرگاہی شہر لطاکیہ میں مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ اس فائرنگ کی خبر مقامی آبادی کی جانب سے باہر نکلی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ فائرنگ سے کتنے افراد زخمی اور ہلاک ہوئے۔

شام کے صدر بشار الاسد نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران واضح کیا کہ ایمرجنسی اور سیاسی پارٹیوں کے بارے میں قوانین ایک سال کے لیے زیر غور رکھے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ اور کثیر الجماعتی نظام کے حوالے سے معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ اسد کے مطابق اصلاحات اہم ہیں اور ریاست اسی مقصد کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ اپنے خطاب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوام کو بیرون ملک سے اکسایا جا رہا ہے اور یہ امر ملکی استحکام کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔

شامی صدر کی مشیر بثینہ شعبان نے AFP کو بتایا کہ حکومت ایمرجنسی قانون کو اٹھانے کی خواہش رکھتی ہے لیکن انہوں نے کسی حتمی تاریخ کا ذکر نہیں کیا۔ اس دوران امکان پیدا ہوا ہے کہ اگلے دو چار دنوں میں نئی کابینہ کا اعلان بھی کردیا جائے گا۔ گزشتہ منگل کو وزیر اعظم ناجی العطری کابینہ سمیت مستعفی ہو گئے تھے۔

بشار الاسد سن 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کی رحلت کے بعد منصب صدارت پر براجمان ہوئے تھے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں