شام میں حمیمیم کے فوجی اڈے پر باغیوں کی جانب سے کی گئی گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم سات روسی جنگی طیارے تباہ ہو گئے ہیں۔ یہ بات بدھ کے روز ایک روسی روزنامے میں بتائی گئی۔
اشتہار
روسی اخبار ’کومرسانٹ‘ کی جانب سے دو عسکری ذرائع کے حوالے سے بدھ تین جنوری کو رات گئے اس جریدے کی ویب سائٹ پر بتایا گیا کہ شام میں حمیمیم کے عسکری اڈے پر باغیوں کی جانب سے کی گئی شدید گولہ باری کے نتیجے میں متعدد روسی جنگی طیارے تباہ ہو گئے۔ سن 2015ء میں شام میں روسی عسکری مداخلت کے بعد سے کسی ایک واقعے میں روسی افواج کو پہنچنے والا یہ سب سے بڑا مادی نقصان ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں کم از کم دس روسی فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ یہ حملہ شدت پسند باغیوں نے اکتیس دسمبر کے روز کیا۔
اخبار کے مطابق اس واقعے میں ایک اے این 72 ٹرانسپورٹ جب کہ چار ایس یو 24 بمبار طیاروں کے علاوہ دو ایس یو 35 ایس لڑاکا طیارے بھی تباہ ہو گئے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس گولہ باری کے نتیجے میں حمیمیم کے فضائی اڈے پر واقع ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ بھی تباہ ہو گیا۔
ترکی اور روس کے درمیان تناؤ، تجارت پہلا شکار
01:50
اس اخبار کے مطابق اس واقعے پر روسی وزارت دفاع کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جب کہ ایک خبر رساں ادارے کی جانب سے بھی روسی وزارت دفاع سے اس واقعے کی تصدیق یا تردید کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی، جو کامیاب نہ ہو سکی۔
بدھ کی صبح روسی وزارت دفاع نے بتایا تھا کہ وسطی شام میں 31 دسمبر کو ایک روسی جنگی ہیلی کاپٹر ’تکنیکی خرابی‘ کی وجہ سے گر کر تباہ ہو گیا، جس کے نتیجے میں ہیلی کاپٹر میں سوار دو پائلٹ ہلاک ہو گئے۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
گزشتہ ماہ روس نے اعلان کیا تھا کہ شامی ساحلی علاقے طرطوس میں روسی بحری اڈہ اور حمیمیم کا فضائی اڈہ اب مستقبل بنیادوں پر قائم کرتے رہیں گے۔
روسی صدر پوٹن نے اپنے دورہ شام کے دوران گزشتہ برس کے اواخر میں حمیمیم کے فوجی اڈے پر اپنے ایک خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ شام میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو شکست دی جا چکی ہے، اس لیے روس شام میں تعینات اپنے فوجیوں کی تعداد میں نمایاں کمی کر رہا ہے۔