1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی فوج کا حمص کے ایک حصے پر دوبارہ قبضہ

26 مارچ 2013

بحران زدہ عرب ریاست شام میں صدر بشار الاسد کے حامی فوجی دستوں نے وسطی شہر حمص کے ’بابا عمر‘ نامی علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ حمص کے اس علاقے میں باغیوں اور سرکاری دستوں کے مابین شدید لڑائی دو ہفتے قبل شروع ہوئی تھی۔

تصویر: Reuters

لبنانی دارالحکومت بیروت سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حمص شہر کے بابا عمر نامی حصے پر دمشق ‌حکومت کے حامی دستوں کے دوبارہ قبضے کی شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ شامی اپوزیشن کی اس تنظیم نے بابا عمر پر سرکاری فوج کے دوبارہ قبضے کی تصدیق اپنی اس رپورٹ کے ایک روز بعد کی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اپوزیشن کارکنوں کو حمص شہر کے دیہی مضافات میں ہابیل نامی گاؤں سے 13 ایسے افراد کی جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں، جن میں سے پانچ خواتین تھیں اور چار بچے۔

حمص شہر میں سرکاری دستوں اور باغیوں کے درمیان لڑائی کی ایک حالیہ تصویرتصویر: Reuters

لندن میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے آج منگل کے روز بتایا کہ شام کے حکومت مخالف باغیوں نے اس علاقے میں داخل ہو کر کئی مقامات پر قبضہ کر لیا تھا مگر دو ہفتے تک جاری رہنے والی خونریز لڑائی کے بعد اب شامی فوج کے سپاہیوں نے ایک بار پھر بابا عمر کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق حمص شہر کے اس علاقے میں موجود اپوزیشن کے ایک کارکن نے بھی تصدیق کر دی کہ اسد حکومت کے مخالف باغی اب بابا عمر سے نکل چکے ہیں۔

حمص وسطی شام کا ایک ایسا شہر ہے، جہاں باغیوں کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہے اور سرکاری دستوں نے کافی عرصے سے اس شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس شہر کو حتمی طور پر اپنے قبضے میں لینے کے لیے شامی فوج نے کچھ عرصہ قبل وہاں ایک بھرپور آپریشن شروع کر دیا تھا۔ اس کے باوجود کئی باغی جنگجو اس شہر کے مختلف علاقوں، خاص کر بابا عمر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اب لیکن شہر کا یہ حصہ دوبارہ سرکاری فوج کے قبضے میں آ گیا ہے، جس دوران مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق مبینہ طور پر کئی شہری بھی مارے گئے۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران شام کے سرکاری فوجی دستوں نے بابا عمر پر اپنے دوبارہ قبضے کو یقینی بنانے کے لیے جنگی طیاروں سے حملوں، راکٹوں اور ٹینکوں سے گولہ باری کا استعمال بھی کیا۔

شامی مہاجرین پناہ کے لیے اردن کے ساتھ قومی سرحد کی طرف جاتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: AFP/Getty Images

اس علاقے کے ایک بار پھر سرکاری فوج کے کنٹرول میں آ جانے کے بعد وہ مقامی باشندے بھی جزوی طور پر واپس لوٹ آئے، جو چند روز قبل لڑائی کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر رخصت ہو گئے تھے۔ تاہم ان مقامی باشندوں کو اپنے زیادہ تر گھر ایسی حالت میں ملے کہ وہ ناقابل رہائش تھے۔

شامی اپوزیشن کے مطابق زیادہ تر بچوں اور خواتین پر مشتمل جن 13 افراد کی لاشیں ایک روز قبل حمص کے ہابیل نامی نواحی گاؤں سے ملی تھیں، وہ سب کی سب بری طرح جلی ہوئی تھیں۔ شامی اپوزیشن کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان افراد کو دمشق حکومت کی حامی ایک مقامی ملیشیا کے مسلح ارکان نے قتل کیا، جس کے بعد ان لاشوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام میں مارچ 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کی صورت میں شروع ہونے والے خونریز تنازعے میں اب تک 70 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

(mm / aa (AFP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں