1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی فوج کی جسر الشغور پر ٹینکوں سے چڑھائی

12 جون 2011

دمشق سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق شامی فوجی دستے آج اتوار کو جسر الشغور میں داخل ہو گئے، جس کے بعد ان کی وہاں مسلح گروپوں کے ساتھ خونریز جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ یہ بات شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے بتائی۔

شامی فوجی دستے جسر الشغور کے ایک نواحی گاؤں کی طرف بڑھتے ہوئےتصویر: dapd

اس کے برعکس انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اطلاع دی ہے کہ شمالی مغربی شام کے اس شہر میں بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ اور بہت سے دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ سرکاری ٹیلی وژن نے اپنی نشریات میں بتایا کہ کئی ڈویژن ملکی فوج جسر الشغور میں داخل ہو گئی ہے، جس کے بعد شہر میں ایک سرکاری ہسپتال پر قبضہ کرنے والے مسلح گروپوں کو بھی وہاں سے نکال دیا گیا۔

شامی مہاجرین ایک ترک سرحدی گاؤں میں جسر الشغور میں مارے جانے والے اپنے ایک حکومت مخالف ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق شام کے اس شہر اور اس کے گرد و نواح میں پوزیشنیں سنبھالے مسلح عسکریت پسندوں کے ساتھ سرکاری دستوں کی جھڑپیں کافی خونریز رہیں۔ فوج اس شہر میں اس بارودی مواد کو ہٹانے کے بعد داخل ہونے میں کامیاب ہوئی، جو مسلح گروپوں کے ارکان نے شہر کو جانے والی سڑکوں اور پُلوں پر نصب کر رکھا تھا۔ شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس کارروائی کے دوران فوجی دستوں نے دو مسلح افراد کو ہلاک کر دیا جبکہ کئی دیگر کو گرفتار کرنے کے علاوہ ان کے قبضے سے مشین گنیں بھی برآمد کر لی گئیں۔

سرکاری میڈیا کی ان رپورٹوں کے برعکس انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے شمال مغربی شام کےاس شہر سے ٹیلی فون پر خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کی صبح تقریباﹰ دو سو ٹینکوں اور جنگی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اس شہر پر دو طرف سے گولہ باری شروع کر دی گئی، جو کافی دیر تک جاری رہی۔

شام سے ترکی جانے والے ہزاروں مہاجرین میں سے چند دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کے قریب ترک علاقے میں قائم کردہ ایک عارضی کیمپ میںتصویر: dapd

ایک عینی شاہد کے مطابق جسر الشغور پر سرکاری دستوں کی یہ گولہ باری مشرق اور جنوب کی طرف سے کی گئی، جو صبح سات بجے شروع ہوئی۔ اس دوران دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور جنگی ہیلی کاپٹر شہر کی فضا میں پرواز کرتے رہے۔

جسر الشغور ایک ایسے شامی صوبے کا شہر ہے، جہاں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مزاحمت کی روایت کافی پرانی ہے۔ اس شہر پر فوجی آپریشن کی تیاریاں کافی دنوں سے کی جا رہی تھیں۔ وہاں بدامنی کے دوران ایک سو بیس پولیس اہلکاروں کی حالیہ ہلاکت کے حوالے سے دمشق حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان سکیورٹی اہلکاروں کو جرائم پیشہ افراد کے مسلح گروپوں نے ہلاک کیا تھا۔ دمشق حکومت کے مطابق جسر الشغور میں فوجی آپریشن مبینہ طور پر وہاں کے شہریوں کی درخواست پر کیا گیا ہے۔

اس شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں کئی دنوں سے جاری لڑائی کی وجہ سے پانچ ہزار سے زائد مقامی باشندے سرحد پار کر کے ہمسایہ ملک ترکی میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق شام میں مارچ کے وسط میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے جمہوریت پسند عوام کے مظاہروں پر سکیورٹی دستوں کے کریک ڈاؤن میں پورے ملک میں اب تک بارہ سو سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں