شامی فوج کے حملوں سے فائر بندی کمزور سے کمزور تر ہوتی ہوئی
3 جنوری 2017دمشق کے نواحی علاقوں پر قابض باغیوں پر شامی فوج کے حملوں سے رواں ماہ کے اختتام پر ہونے والے امن مذاکرات کے انعقاد کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ روس، ترکی اور ایران کی ضمانت سے شروع ہونے والی جنگ بندی کو صرف پانچ دن ہوئے ہیں اور ابھی سے اِس ڈیل میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
شامی فوج دمشق کے نواح میں واقع علاقوں کی بازیابی کے لیے اپنے حملوں میں شدت پیدا کیے ہوئے ہے۔ اس لڑائی کی وجہ سے جنگ بندی کی ڈیل میں شامل کم از کم دس باغی گروپوں نے رواں مہینے کے اختتام پر وسطی ایشیائی ریاست قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شروع ہونے امن مذاکرات میں شرکت کو معطل کر دیا ہے۔
باغیوں کے مطابق شامی فوج مشرقی غوطہ اور وادی بردی میں قابض باغیوں پر بار بار حملے کر کے فائربندی کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ ابھی تک جنگ بندی کا احترام کر رہے ہیں۔ باغیوں کے مطابق شامی فوج کی خلاف ورزیوں کے باعث وہ آستانہ مذاکرات کے لیے گروپوں کے درمیان جاری مذاکرات کو فی الحال منجمد کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ کئی ایام سے شامی فوج کے جنگی طیارے دمشق سے پندرہ کلومیٹر کی دوری پر واقع وادی بردی پر روزانہ کی بنیاد پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باغیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر شامی فوج کے زمینی دستے حرکت کرتے ہیں تو باغی فائربندی ڈیل کو ختم سمجھیں گے۔ گزشتہ روز شامی فوج نے اپنے توپخانے کے ساتھ وادی بردی کے قریبی دیہات پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
شامی فوج کی اِس علاقے میں دلچسپی کی وجہ دمشق کو پہنچنے والی پانی کی سپلائی ہے۔ شامی حالات پر نگاہ رکھنے والے مبصر گروپ سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق شامی فوج عین الفیجہ کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش میں ہے۔ اس مقام پر قبضے میں حزب اللہ کے جنگجو بھی شامل ہیں۔ عین الفیجہ سے شامی دارالحکومت میں پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
آبزرویٹری کے مطابق حکومتی دعویٰ ہے کہ وہ القاعدہ سے وابستہ باغی گروپ فتح الشام کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ گروپ جنگ بندی ڈیل میں شامل نہیں ہے۔ دوسری جانب باغی اِس حکومتی دعوے کی نفی کرتے ہیں۔