شامی قومی کونسل کے نئے سربراہ کے طور پر عبدالباسط سیدا کی نامزدگی
10 جون 2012
بیروت سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ سیدا اپنی ایمانداری اور اصولی مؤقف کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تاہم اے ایف پی کے مطابق ان کے کئی ناقدین کو اعتراض یہ ہے کہ انہیں عملی سیاست کا زیادہ تجربہ نہیں ہے۔
سیریئن نیشنل کونسل کے قیام کے بعد اس کے پہلے سربراہ بننے والے سیاستدان برہان غالیون تھے۔ وہ ایک ماہر تعلیم ہیں جو پیرس میں رہتے ہیں۔ وہ گزشتہ مہینے اس کونسل میں داخلی اختلافات کے خدشات کے باعث اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ یہ کونسل شامی عوام اور ملکی اپوزیشن کے بیرونی دنیا کے ساتھ رابطوں کے واحد ذریعے کا کام کرتی ہے۔
عبدالباسط سیدا کی ایس این سی کے نئے سربراہ کے طور پر نامزدگی کے بعد یہ کرد سیاستدان اب برہان غالیون کے جانشین تو بن جائیں گے لیکن ان پر عائد ہونے والی ذمہ داری بھی بہت بڑی ہو گی۔ انہیں شامی جلاوطن سیاستدانوں اور مختلف اپوزیشن تنظیموں کے اتحاد SNC اور شام میں سرکاری دستوں کے خلاف مسلح کوششیں کرنے والے باغیوں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنا ہو گا۔ سیدا کے پیش رو غالیون پر الزام تھا کہ وہ شام میں مزاحمت کرنے والی اپوزیشن باغیوں کی مقامی رابطہ کمیٹیوں کو نظر انداز کر رہے تھے۔
سیدا کی نامزدگی کا اعلان ایس این سی کے اتوار کی صبح جاری کردہ ایک بیان میں کیا گیا۔ بیان کے مطابق ان کی نامزدگی شامی نیشنل کونسل کے رہنماؤں کے کل ہفتے کے روز ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے ایک اجلاس میں عمل میں آئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سیدا کو ایک ایسے متفقہ امیدوار کے طور پر منتخب کیا گیا جو شامی اپوزیشن کے مختلف گروپوں کو متحد رکھنے کا اہل ہے۔
عبدالباسط سیدا 1956 میں شمال مشرقی شام میں کردوں کی اکثریت والے ایک علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک ماہر تاریخ ہیں جنہوں نے فلسفے میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے اور وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ سیدا کا تعلق شام میں کرد نسلی اقلیت سے ہے۔ شام کی 23 ملین کی مجموعی آبادی میں کردوں کا تناسب نو فیصد کے قریب ہے۔
شامی قومی کونسل کے رہنماؤں کی اکثریت کے مطابق سیدا ایک ایماندار،غیرجانبدار اور مصالحت کو ترجیح دینے والے سیاستدان ہیں۔ عبدالباسط سیدا ایس این سی کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ بھی ہیں۔
اسی دوران کویت کے ایک اخبار نے آج اتوار کو لکھا ہے کہ شام میں آزاد شامی فوج FSA کے مسلح باغیوں کی مدد کرتے ہوئے درجنوں کویتی باشندے بھی وہاں اسد حکومت کے دستوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ کویتی باشندے ترکی کے راستے شام میں داخل ہوئے۔
ادھر لندن میں قائم شامی اپوزیشن گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی دستوں نے آج اتوار کو حمص کے صوبے میں کئی مقامات پر نئے سرے سے گولہ باری کی۔ اس گروپ نے حمص میں تازہ گولہ باری میں کم از کم دو عام شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
خبر ایجنسی روئٹرز نے یروشلم سے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ اسرائیلی نائب وزیر اعظم شاؤل موفاز نے آج کہا کہ شامی حکومت اپنے ہی ملک میں نسل کشی کی مرتکب ہو رہی ہے جو ہر حال میں رکوائی جانی چاہیے۔ شاؤل موفاز نے مطالبہ کیا کہ اسد حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے شام میں اسی طرح کی بین الاقوامی فوجی مداخلت کی جانی چاہیے جیسی لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کے خلاف کی گئی تھی۔
ij / ab / AFP, Reuters