ترکی میں شامی مہاجرین 'سیاسی فٹ بال‘ بن گئے ہیں۔ اقتصادی مسائل ایک طرف لیکن آئندہ برس کے صدارتی انتخابات میں انہیں واپس شام روانہ کرنے کا عہد سبھی سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں۔
اشتہار
شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ترکی میں آباد ہے۔ سن 2012 سے ہی شامی مہاجرین نے ترکی کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ خانہ جنگی کا شکار شامی شہریوں کی خواہش صرف یہی تھی کہ وہ ایک پرامن مقام پر پہنچ جائیں۔ یہی شامی بعد ازاں یورپی ممالک بھی پہنچے۔
تاہم سن 2016 میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین ایک ڈیل ہوئی، جس کے تحت انقرہ حکومت نے ان شامیوں کو یورپ جانے سے روکنے پر آمادگی ظاہر کی، جس کے بدلے میں یورپی یونین نے ترکی کو مالی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھی ترکی میں تقریبا 37 لاکھ شامی مہاجرین سکونت پذیر ہیں۔ تاہم بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے ترک عوام بھی اب ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔
سیاسی و اقتصادی مسائل
ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں تاریخی گراوٹ، افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ اور پھر اس پر یوکرین جنگ نے انقرہ کے لیے کئی نئے سیاسی اور مالی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اس صورتحال میں ترکی میں آباد شامی مہاجرین کچھ زیادہ ہی بے یقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔
شامی حالات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین متفق ہیں کہ وہاں کے حالات ایسے نہیں کہ مہاجرین کو واپس روانہ کیا جائے۔ لیکن ترک صدر کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں تعمیر نو اور بحالی چاہتے ہیں تاکہ شامیوں کو مرحلہ وار واپس بھیجا جا سکے۔
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔
تصویر: Uli Deck/dpa/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
ترک صدر رجب طیب ایردوآن سن 2003 سے طاقت کے ایوانوں میں ہیں۔ عوامی جائزوں کے مطابق سن 2023 کے صدارتی انتخابات میں بھی ان کی جیت کے امکانات روش ہیں۔
مشکل حالات میں سیاسی و عوامی حمایت کی خاطر ایردوآن شامی مہاجرین کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ رضا کارانہ طور پر واپس اپنے ملک چلے جائیں۔
ترکی کی کوششیں مگر مشکلات
ترکی نے سن 2016 سے شام میں اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں، جو وہاں تعمیر نو اور بحالی کے کاموں میں بھی مصروف ہیں۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ وہ شام کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے مزید اقدامات بھی کریں گے۔
ترکی نے اپنے سرحدی علاقوں سے متصل شام میں ایک محفوظ زون بھی بنا لیا ہے جبکہ ادلب میں کئی ہزار گھر بھی تعمیر کر دیے ہیں۔ تاہم شائد صرف یہ شامی مہاجرین چھت اور چار دیواری سے کچھ زیادہ کے حق دار ہیں۔
ایردوآن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ ان شامی مہاجرین کو 'قاتلوں‘ کے حوالے نہیں کریں گے، یعنی جب تک شام کے حالات پرامن نہیں ہوتے، شامیوں کی حفاظت ان کا مشن ہے۔ لیکن سیاسی طور پر اب وہ کچھ مشکل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنے اس نعرے پر برقرار رہتے ہیں تو ووٹرز کی حمایت سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔
اشتہار
مہاجرین کی واپسی عوامی نعرہ
ایردوآن کے مرکزی حریف اور صدارتی امیدوار کمال کلچدآلو نے کھلے عام کہا ہے کہ اگر وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو گئے تو وہ تمام شامی مہاجرین کو واپس بھیجوا دیں گے۔ کمال کی سیاسی پارٹی سی ایچ پی کا یہ عوامی نعرہ ترک ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح انتہائی دائیں بازو کی کٹر سیاسی جماعت وکٹری پارٹی نے مہاجرین کے ‘خاموش حملے‘ کو پارٹی نعرہ بنا لیا ہے۔
کچھ ترکوں کا خیال ہے کہ شامی مہاجرین کی وجہ سے ان کے لیے ملازمت کے مواقع کم ہو گئے ہیں جبکہ مکانات کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔ کچھ لوگ تو ملک میں مہنگائی اور مالی بحران کو اسی معاملے سے جوڑنے کی کوشش میں ہیں۔
وُوچجیک مہاجر کیمپ: مہاجرین سردی سے شدید خوفزدہ
بوسنیا اور ہیرسے گووینا کے شمال مغرب میں رواں برس موسم گرما سے مہاجرین کا کیمپ قائم ہے۔ حالات ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ یہ کیمپ گندگی سے بھرا ہے اور مضر صحت ہے۔ یہاں ہر شے کی کمی ہے اور اب سردی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
سردی کے علاوہ کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا
وُوچجیک کے مہاجر کیمپ کو اکتوبر کے اختتام سے سردی نے گھیر لیا ہے۔ بوسنیا میں درجہ حرارت دس سیلسیئس سے گر چکا ہے۔ زیادہ تر مہاجرین موسم سرما سے بچاؤ کے لباس بھی نہیں رکھتے۔ ان کا واحد سہارا عطیہ شدہ کپڑے اور کمبل ہیں۔ بعض کے پاس تو بہتر جوتوں کا جوڑا بھی نہیں ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
زہریلا دھواں یا ٹھنڈ سے موت
اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے پاکستانی، افغان اور شامی مہاجرین جنگل سے جمع شدہ لکڑیوں کو جلاتے ہیں۔ اپنے پتلے ترپالوں والے خیموں میں یہ مہاجرین منجمد کر دینے والی سردی سے بچنے کے لیے زہریلے دھوئیں میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اس دھوئیں سے انہیں پھیپھڑوں کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
ملبے پر زندگی
وُوچجیک کا مہاجر کیمپ رواں برس جون میں ضرورت کے تحت قائم کیا گیا۔ بوسنیا ہیرسے گووینا میں سات سے آٹھ ہزار کے درمیان مہاجرین ہیں۔ زیادہ تر شمال مغربی شہر بہاچ کی نواحی بستی میں رکھے گئے ہیں۔ سبھی کیمپ گنجائش سے زیادہ مہاجرین سے بھرے ہیں۔ وُوچجیک کا کپمپ بہاچ سے چند کلو میٹر دور زمین کی بھرائی کر کے بنایا گیا ہے۔ یہ مہاجر کیمپ کے بین الاقوامی ضابطوں سے عاری ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
انتہائی خطرناک کیمپ
امدادی تنظیمیں بوسنیا ہیرسے گووینا سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وُوچجیک کے کیمپ کو بند کر دیا جائے اور یہاں کے مہاجرین کو بہتر رہائش فراہم کی جائے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرت کے ادارے کے کوآرڈینیٹر کے مطابق اگر مہاجرین نے موسم سرما اس کیمپ میں گزار دیا تو کئی کی موت ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
یورپی یونین: نزدیک مگر بہت دور
وُوچجیک کا کیمپ کروشیا کی سرحد سے صرف چھ کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ کئی مہاجرین یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ بعض کامیاب اور بعض ناکام رہے۔ ناکام ہونے والے واپس اسی کیمپ پہنچ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بارودی سرنگیں بھی ہیں اور سڑک پر چلنا ہی بہتر ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
ٹھنڈے پانی میں نہانا
وُوچجیک کے کیمپ میں کنستروں میں ٹھنڈا پانی دستیاب ہے۔ یہی پینے اور نہانے کے لیے ہے۔ غیرصحت مندانہ ماحول بڑے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کیمپ میں خارش کی بیماری اسکیبیز پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ بنیادی طبی امدادی دستیاب نہیں۔ شدید علالت کی صورت میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
باہر کی دنیا سے رابطہ
وُوچجیک کیمپ میں پانی اور بجلی کی محدود سپلائی ہے۔ موبائل فون رکھنے والے خوش قسمت ہیں کہ اُن کا رابطہ باہر کی دنیا سے ہے اور یہی ان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ بعض مہاجرین کے مطابق ان کے فون چوری یا ضائع ہو چکے ہیں اور کئی کے فون سرحد پر کروشیا کی پولیس نے نکال لیے ہیں۔ کروشیا ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
گھر جیسی چھوٹی سی جگہ
وُوچجیک کیمپ میں یہ مہاجرین اپنے ملک جیسی روٹیاں پکانے میں مصروف ہیں۔ ریڈ کراس انہیں خوراک کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن یہ خوراک بہت کم خیال کی جاتی ہے۔ ریڈ کراس کے علاقائی سربراہ نے چند ماہ قبل سرائیوو حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اُس نے علاقے کو نظرانداز کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
اکھٹے رہنے میں بہتری ہے
اس کیمپ میں آگ پوری طرح مہاجرین کے جسموں کو گرم رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ وہ وُوچجیک سے فوری طور پر منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک افغان مہاجر کے مطابق سلووینیا اور کروشیا میں مویشیوں کے لیے بنائی گئی عمارتیں اس کیمپ سے بہتر ہیں۔ اُس کے مطابق یہ کیمپ نہیں ہے اور نہ ہی انسانوں کو رکھنے کی کوئی جگہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
9 تصاویر1 | 9
’شامی مہاجرین کی واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں’
انقرہ کے تھنک ٹینک TEPAV سے وابستہ محقق عمر کاڈکوئے کا کہنا ہے کہ فی الحال کسی نے ان مہاجرہن کی واپسی کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں عمر نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کہ شامی سرزمین پر ترکی نے جو مکانات بنائے ہیں، وہ زمین کس کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ترک اور شامی صدور کے مابین کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے اور مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی بھی ایک غیر حقیقی منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔
انقرہ یونیورسٹی میں مہاجر امور کے ماہر پروفیسر مراد ایردوآن کے بقول ادلب کے علاقے میں محفوظ زون کی حالت بھی ابتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں بنائے گئے مکانات میں دس لاکھ افراد کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت وہاں چالیس لاکھ لوگ کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اے ایف پی سے گفتگو میں مراد نے کہا کہ یہ بھی واضح نہیں کہ یہ علاقہ کب تک ترک افواج کی نگرانی میں رہے گا اور جب ترک فوجی واپس جائیں گے تو یہاں بسنے والوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ ان کے بقول آئندہ الیکشن میں ایردوآن کو اس حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہو گا۔
روس کی دھمکی اور مہاجرین کے نئے بحران کا اندیشہ
ترکی میں آنے والے شامی مہاجرین میں زیادہ تر شہری علاقوں میں شفٹ ہو چکے ہیں اور کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ عمر نے کہا کہ شام کی گیارہ سالہ خانہ جنگی کے باعث لوگ اب اس بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ معاملہ بہت زیادہ میڈیا کی زینت بن چکا ہے اور لوگ ایسی خبروں سے بور ہو چکے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملک روس نے دھمکی دی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی اس قرار داد کی مدت میں توسیع مخالفت کرے گا، جس کے تحت شام میں تمام تر امدادی سامان براستہ ترکی جانے کا کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے جولائی میں فیصلہ ہونا ہے کہ شام میں امداد پہنچانے کا راستہ کیا ہونا چاہیے۔
عمر ایردوآن کے مطابق اگر ایسا ہوا تو ترکی میں اضافی چالیس لاکھ مہاجرین کی آمد کے خطرات بڑھ جائیں گے، جو بعدازاں یورپ کا رخ کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ یوں ترکی اور یورپ کو مہاجرین کے ایک نئے سمندر کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ یوکرین جنگ کے باعث یوکرینی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ پہنچ رہی ہے۔