شامی مہاجرین کی طرف سے اسد حکومت کے خلاف مقدمات
8 نومبر 2017قانونی مشاورت فراہم کرنے والی تنظیم یورپین سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس (ECCHR) کے مطابق 13 شامی مرد اور خواتین نے 17 مشتبہ افراد کا نام دیا ہے جو ان کے خیال میں ’’اسد کی بے رحمانہ پالیسیوں کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔‘‘
نامزد افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کرانے کے لیے داخل کیے گئے یہ مقدمات ’’بین الاقوامی دائرہ اختیار‘‘ کے اصول کے تحت درج کرائے گئے ہیں۔ اس اصول کے مطابق جرمن عدالتیں ایسے مقدمات بھی سن سکتی ہیں جن میں نہ تو مدعی اور نہ ہی مدعا علیہ جرمن شہری ہوں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جن افراد کو ملزم نامزد کیا گیا ہے ان میں شام کے نیشنل سکیورٹی بیورو، ایئر فورس انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ، وزارت دفاع اور ملٹری پولیس کے سربراہان شامل ہیں۔
شامی حکومت اور اعلیٰ اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کرانے والوں میں شامل یزن عوض کے مطابق، میرے خیال میں جرمنی میں فوجداری مقدمہ درج کرانا ہی اس وقت انصاف کے لیے لڑنے کا واحد طریقہ ہے۔‘‘ 30 سالہ عوض کو شام کی ایئرفورس انٹیلی جنس کی طرف سے کئی ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا تھا۔
یزن عوض کا مزید کہنا تھا، ’’یہ صرف میرے نہیں بلکہ یہ ان تمام لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی تک اسد کی تشدد کے لیے بنائی گئی جیلوں میں موجود ہیں۔‘‘
شام میں قریب چھ برس سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زائد شامی ہلاک جبکہ کئی ملین گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جرمن اور فرانسیسی استغاثہ پہلے ہی اسد حکومت کی طرف سے 2011ء کے بعد سے اب تک تشدد کے الزامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
شامی حکومت سے بغاوت کرنے والے ایک سابق پولیس اور ملٹری فوٹو گرافر نے جسے ’’سیزر‘‘ کا کوڈ نام دیا گیا ہے، ایسے ہزارہا ڈیجیٹل تصاویر حکام کو فراہم کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ 11 ہزار مارے جانے والے قیدیوں کی ہیں۔ یہ تصاویر جرمن حکام کو بھی فراہم کی گئی ہیں۔