بشار الاسد کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے تحت شامی خانہ جنگی کے دوران مہاجرت اختیار کرنے والے شامی اپنی املاک اور جائیداد سے محروم ہو سکتے ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ نے بشار الاسد کے اس منصوبے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
اشتہار
جرمن روزناموں ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ اور رائنشے پوسٹ نے جمعے کے دن رپورٹ کیا ہے کہ شام کی تعمیر نو کے لیے نئے منصوبہ جات جاری کیے جانے کے بعد شامی باشندوں کو اپنی جائیداد اور املاک کے لیے اپنے ملکیتی حقوق صرف تیس دنوں کے اندر اندر جمع کرانا ہوں گے۔
خدشہ ہے کہ اگر اس منصوبے پر عمل کیا گیا تو جرمنی سمیت دیگر ممالک میں سکونت پذیر شامی مہاجرین اپنی املاک اور جائیداد سے محروم ہو جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ جرمنی اقوام متحدہ اور شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملک روس پر زور دے رہا ہے کہ وہ دمشق حکومت کو اس اقدام سے باز رکھیں۔
دونوں جرمن اخباروں نے مشرق وسطیٰ میں موجود اقوام متحدہ کے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر شام میں اس منصوبے پر عمل ہوا تو زیادہ تر ایسے شامی متاثر ہوں گے، جو اپارٹمنٹس، بلڈنگز یا پلاٹوں کے مالک ہیں۔
ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ نے ورلڈ بینک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ تر شامی مہاجرین اپنی ملکیت کے کاغذی ثبوت فراہم نہیں کر سکیں گے کیونکہ حکومت کے پاس تمام شامی باشدوں کی ملکیت کا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بالخصوص حمص میں تباہی کی وجہ سے لوگوں اور حکومت کے پاس ایسے ریکارڈز ضائع ہو چکے ہیں۔
سات سالہ شامی خانہ جنگی کی وجہ سے چھ ملین شامی ملک کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ان میں سے ایسے مہاجرین انتہائی کم ہیں، جو اپنی پراپرٹی کے کاغذی ثبوت اپنے ساتھ لا سکیں تھے۔ اسی طرح ایسے چھ ملین شامی بھی ہیں، جو ملک کے اندر بے گھر ہوئے ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ بھی ان کاغذات کو سنبھال نہیں سکیں ہوں گے۔
ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ کی رپورٹ کے مطابق جرمن وزارت خارجہ نے شامی صدر بشار الاسد کے اس منصوبے پر ’سخت غصے‘ کا اظہار کرتے ہوئے اسے لوگوں کو ان کی ’جائیداد سے محروم‘ کرنے کا ایک حربہ قرار دے دیا ہے۔
ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ اور رائنشے پوسٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شامی حکومت نے بظاہر یہ منصوبہ اس لیے بنایا ہے تاکہ ’حکومت اور اس کے حامیوں کو مفادات پہنچائئے جا سکیں اور بڑے پیمانے پر جلا وطنی اختیار کرنے والے شامی باشندوں کی واپسی کے دروازے بند کر دیے جائیں‘۔
شام میں سن دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں زیادہ تر سنی آبادی آگے آگے تھی۔ اب خدشہ ہے کہ شام کی تعمیر نو اور بحالی کے کام میں اس آبادی کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے، بالخصوص دمشق، حمص اور ادلب میں۔
اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ شامی حکومت اب اپنے وفاداروں کو ہی تعمیراتی ٹھیکے دی گی اور ان کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ صدر بشار الاسد کے زیر کنٹرول علاقوں میں علوی، مسیحی، دروز، شیعہ اور اسماعیلی عقیدوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت ہے۔
ایان جانسن/ ع ب / ع ت
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔