'شامی مہاجرین کے ساتھ امریکا میں وی آئی پی سلوک‘
24 اپریل 2017ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مہاجرین پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں، مونا حفیظ نے گزشتہ ہفتے امریکی ثقافتی دارالحکومت نیویارک میں 150 دیگر مہاجرین کے ساتھ نہ صرف دوپہر کے کھانے میں پیزا کھایا بلکہ نیویارک کی سیر بھی کی۔
امریکا میں مہاجرت کے حوالے سے بحث اور تعصب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاجرین کے لیے ان سیاحتی ٹورز کے منتظم لوک مِلر کو فیس بک پر موت کی دھمکیاں ملنے لگیں۔
اڑتالیس سالہ ملر ’رئیل نیویارک ٹورز‘ کے نام سے خاندانی کاروبار چلا رہے ہیں۔
ملر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ لوگوں نے طرح طرح کے نا مناسب تبصرے لکھے ہیں۔ ایسا ردِ عمل نا قابلِ یقین ہے۔‘‘
موسمِ بہار کی پانچ روزہ چھٹیوں کے دوران ملر نے ان ٹورز میں زیادہ تر شامی مہاجرین کو نیویارک کی سیر کرائی تاہم ان میں کچھ عراقی پناہ گزین بھی شامل تھے۔ سیر کرنے والے گروپ کے افراد کو نیویارک کی تاریخ کے بارے میں کہانیوں اور مزے دار حقائق سے آگاہ کیا گیا۔
ان مہاجرین نے ایک دن کے لیے زبان سیکھنے اور ملازمت کے حصول جیسی پریشانیوں کو پسِ پشت ڈالا اور برسوں خوف اور بے یقینی میں رہنے کے بعد خوب لطف اٹھایا۔ شامی مہاجر بچی مونا کی والدہ راودا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ یہ میرے اب تک کے امریکا میں گزرے دنوں میں سب سے خوبصورت دن تھا۔ بہت ہی اچھا اور حیرت انگیز دن۔‘‘
مونا کے والد کی شام میں جوتوں کی دکان تھی لیکن اب انہیں بھی دیگر مہاجرین کی طرح ملازمت تلاش کرنی ہے اور سب سے پہلے تو انگریزی زبان سیکھنی ہے۔
45 سالہ عراقی تارک وطن عمار احمد کا کہنا تھا،’’ میرا خاندان خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔ امریکا میں رہنا ہمیشہ سے میرا خواب تھا۔‘‘