حکومتی ادارے اور امدادی تنظیمیں کے مطابق لبنان، اردن اور ترکی میں مقیم شامی بچوں کی تعلیم کے لیے اعلان کی جانے والی امداد غائب ہے۔
اشتہار
لبنان، اردن اور ترکی میں موجود نصف ملین سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور گزشتہ برس اس کی ایک بڑی وجہ سرمائے کی کمی تھی۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ ان مہاجرین بچوں کے لیے تعلیم کی مد میں دی جانے والی لاکھوں ڈالر کی امداد غائب ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق لبنان، اردن اور ترکی میں اسکول جانے کی عمر کے نصف ملین سے زائد بچوں کی تعلیم تک رسائی ممکن نہیں۔ ان تین ممالک میں شامی مہاجر بچوں کی مجموعی تعداد 16 لاکھ کے قریب ہے۔
لبنان میں شامی مہاجر بچوں کی کلاسیں مکمل طور پر بھری ہوئی ہیں اور اسکولوں کی کمروں کی کمی کی وجہ سے وہاں آدھے دن کی شفٹیں چلائی جا رہی ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم مہیا کی جا سکے۔ تاہم اس کے باوجود لاکھوں بچے اب تک تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
شمالی وزیرستان کے مہاجر بچوں کے لیے افغانستان میں اسکول
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے افغان علاقے لمن جانے والے پاکستانی مہاجرین کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول کی تصاویر دیکھیے جو تفصیلات سمیت ایک مقامی صحافی اشتیاق محسود نے ڈی ڈبلیو کو ارسال کی ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
اسکول کا بانی بھی پاکستانی مہاجر
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مہاجر محمد علی شاہ نے ( سفید لباس میں ملبوس ) افغان علاقے لمن میں پاکستانی پناہ گزین بچوں کے لیے ایک ٹینٹ اسکول قائم کیا ہے۔ محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ اسکول اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کا تعلیمی مستقبل بچانے کے لیے قائم کیا گیا۔
تصویر: I. Mahsud
ساڑھے چار سو بچے زیر تعلیم
محمد علی شاہ کے بقول خیموں میں قائم کیے گئے اس اسکول میں شمالی وزیرستان کے قریب ساڑھے چار سو مہاجر بچوں کو چھٹی جماعت تک تعلیم دی جا رہی ہے۔
تصویر: I. Mahsud
ایک خیمے میں تین کلاسیں
اسکول کے بانی کا کہنا ہے کہ جگہ کی کمی کے باعث ایک خیمے میں تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ وسائل نہ ہونے کے سبب ان پناہ گزین بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
تعلیم کا شوق
اسکول میں زیر تعلیم چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ وہ موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے علاقے کی خدمت کر سکیں۔
تصویر: I. Mahsud
’افغان حکومت مدد کرے‘
محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اُنہوں نے افغان حکومت اور اقوام متحدہ سے بچوں کی تعلیم میں معاونت کا مطالبہ بھی کیا۔
تصویر: I. Mahsud
’اسلام آباد اور کابل کے بچوں جیسی تعلیم‘
ایک اور طالب علم رفید خان نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی ویسی ہی تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں، جو اسلام آباد اور کابل کے بچوں کو حاصل ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
کھیل کا میدان بھی ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد کئی قبائلی خاندان ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے تھے، جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں نے خیموں سے باہر کھیل کا میدان بھی بنا رکھا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
اساتذہ بھی مہاجر
اس خیمہ اسکول میں پانچ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ ان تمام اساتذہ کا تعلق بھی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے اور یہ بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
8 تصاویر1 | 8
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے بچے مختلف جگہوں پر مشقت میں مصروف ہیں اور انہیں کام چھڑوا کر تعلیم کی جانب راغب کرنا مشکل معاملہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بچوں کو تعلیمی مراکز تک پہنچنے اور اسکولوں میں انہیں تحفظ کا احساس دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ امداد کا غائب ہونا ہے۔ یعنی مختلف ممالک نے اس سلسلے میں جتنا سرمایہ مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا، اتنا مہیا کیا نہیں۔
ہر تیسرا افغان بچہ سکول نہیں جا رہا
01:26
امریکی حکومتی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے مطابق گزشتہ برس اردن کو اس مد میں 248 ملین ڈالر دیے گئے، تاہم اردن کی حکومت کے مطابق اسے صرف 31 ملین ڈالر ملے ہیں۔
اردن کی امدادی تنظیمیں بھی 25 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو پر کر کے شامی بچوں کو اسکولوں تک رسائی دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شامی بچوں کے لیے دی جانے والی عالمی امدادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ برس 2016 ملین ڈالر کے وعدے کیے گئے تھے، تاہم مہیا صرف 97 ملین ڈالر کیے گئے۔