ہالی وڈ اسٹار جارج کلونی اور اُن کی اہلیہ کا قائم کردہ فنڈ لبنان کے سرکاری اسکولوں میں تین ہزار شامی مہاجر بچوں کی تعلیم کی مالی سرپرستی کرے گا۔ لبنان میں مقیم قریب دو لاکھ شامی مہاجر بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔
اشتہار
امل کلونی لبنانی نژاد برطانوی شہری ہیں جو پیشے کے لحاظ سے انسانی حقوق کی معروف خاتون وکیل بھی ہیں۔ امل کلُونی نے سن دو ہزار چودہ میں ہالی ووڈ اسٹار جارج کلونی سے شادی کی تھی۔ اس جوڑے نے رواں برس قریب تین ہزار شامی مہاجر بچوں کو لبنان کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت لبنان میں تقریباﹰ دو لاکھ شامی مہاجر بچے اسکول نہیں جا رہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ڈھائی لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ شام میں جاری طویل خانہ جنگی سے فرار حاصل کر کے قریب ایک ملین شامی مہاجرین نے پڑوسی ملک لبنان میں پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ ان میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔
'کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹِس وِد گُوگل‘ بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے یونیسف کے ساتھ شراکت میں 2.25 ملین ڈالر کی فنڈنگ کرے گی۔
کلونیز کا کہنا ہے کہ یونیسف کے ساتھ اس شراکت کی بدولت لبنان میں سات سرکاری اسکولوں میں ایسے شامی مہاجر بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا جو ابھی تک اسکول نہیں جا سکے۔
کلونیز نے اپنے ایک بیان میں کہا،’’ ہزاروں شامی بچوں کی زندگی داؤ پر ہے۔ ہم صرف اس لیے ایک پوری نسل کو ضائع ہونے نہیں دے سکتے کیونکہ وہ غلط وقت پر اور غلط جگہ پیدا ہوئے۔‘‘
شام میں مارچ سن 2011 میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے اب تک وہاں جاری جنگ میں قریب ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں شامی افراد نے یورپ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کی ہے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔