شامی مہاجر بچے کم عمری ميں شادی اور مزدوری کے خطرے سے دوچار
عاصم سلیم
10 جنوری 2018
امدادی اداروں نے خبردار کيا ہے کہ خانہ جنگی کے سبب سياسی پناہ کے ليے لبنان ہجرت کرنے والے شامی پناہ گزينوں ميں غربت بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے بچوں ميں مشقت اور کم عمری ميں شاديوں جيسے رجحانات ميں اضافے کا امکان ہے۔
اشتہار
بچوں کے ليے اقوام متحدہ کے ادارے يونيسف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کی جانب سے کرائے گئے ايک سروے ميں سامنے آيا ہے کہ لبنان ميں مقيم شامی تارکين وطن کی موجودہ صورتحال اس وقت سے بدتر ہے جب وہ اپنے ملک کے مسلح تنازعے کے آغاز پر لبنان گئے تھے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں کرائے گئے اس مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ لبنان ميں پناہ ليے ہوئے شامی تارکين وطن کا تين چوتھائی حصہ چار ڈالر يوميہ سے بھی کم پر گزر بسر کر رہا ہے۔ اس سے انہيں روز مرہ کی ضروريات پوری کرنے ميں دشوارياں پيش آ رہی ہيں۔
لبنان ميں يو اين ايچ سی آر کے ترجمان اسکوٹ کريگ نے خبر رساں ادارے کو بتايا، ’’لبنان ميں موجود شامی مہاجرين کی صورتحال ميں مزيد خرابی پيدا ہو رہی ہے۔ وہ غريب سے غريب تر ہوتے جا رہے ہيں۔‘‘ يہ امر اہم ہے کہ لبنان ميں شامی تارکين وطن کی مجموعی تعداد ڈيڑھ ملين کے لگ بھگ ہے، جو اس ملک کی آبادی کے ايک چوتھائی حصے کے برابر ہے۔ بيروت حکومت نے ان پناہ گزينوں کی رہائش کا کوئی خصوصی انتظام نہيں کيا ہے۔ اسی وجہ سے يہ مہاجرين غير سرکاری بستيوں اور خيموں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ قانونی رہائش اور ملازمت کے سلسلے ميں بھی انہيں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
يونيسف کی لبنان ميں ترجمان تانيا چاپوئيسيٹ کے بقول غربت کا براہ راست نتيجہ کم عمری ميں شادی اور بچوں سے مشقت کی صورتوں ميں نکلتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہميں خدشہ ہے کہ شامی تارکين وطن ميں بڑھتی ہوئی غربت يہ نکلے گا کہ اسکول جانے کے بجائے يہ بچے يا تو اپنے اہل خانہ کی ضروريات پوری کرنے کے ليے کام کاج شروع کر ديں گے يا پھر ان ميں سے کئی کو بياہ ديا جائے گا۔‘‘
يونيسف کے مطابق اس وقت لبنان ميں موجود پانچ تا سترہ برس کی درميانی عمر والے شامی مہاجر بچوں کی پانچ فيصد تعداد ملازمت کر رہی ہے جبکہ پندرہ اور پچيس سال کے درميان کی عمر والی ہر پانچ ميں سے ايک لڑکی کی شادی ہو چکی ہے۔ نارويجيئن ريفيوجی کونسل کے ترجمان مائيک بروس کا کہنا ہے کہ انسانی بنيادوں پر ناکافی امداد اور ملازمت کے مواقع کی عدم دستيابی کے سبب شامی خاندان قرض کے بوجھ تلے دبتے جائيں گے اور وہ منفی راستے اختيار کر سکتے ہيں يعنی کم عمری ميں شادیوں اور چائلڈ ليبر کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔