شامی پارلیمان کے رکن کا داعش کے ساتھ مبینہ کاروبار
عابد حسین
11 اکتوبر 2017
شام کے صدر کی حامی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ کئی برسوں کاروباری تعلق استوار رکھا۔ یہ رکن پارلیمنٹ جہادیوں سے مسلسل گندم خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز سے بات کرتے ہوئے عراقی صوبے الرقہ کے پانچ کسانوں اور جہادی انتظامیہ کے دو اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ وہ شامی پارلیمنٹ کے رکن حسام الکترجی کے ساتھ کاروبار کرتے رہے ہیں۔ الکترجی تقریباً چھ برسوں تک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیر قبضہ علاقوں سے گندم خریدتے رہے ہیں اور یہ گندم دارالحکومت دمشق تک لائی جاتی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ اس انتظام کے تحت شامی حکومت اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں لوگوں کو خوراک فراہم کرتی رہی ہے۔
دمشق میں حسام الکترجی کے دفتری اہلکار محمد کسب نے بھی تصدیق کی ہے کہ الکترجی گروپ نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں اُس گندم کی خرید کی تھی، جو جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیر قبضہ علاقوں میں کاشت کی جاتی تھی۔ کسب نے البتہ دہشت گرد تنظیم داعش یا اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ کسی بھی قسم کے دوسرے تعلق یا رابطے کی تردید کی ہے۔
نیوز ایجنسی اس امر کی تصدیق نہیں کر سکی ہے کہ داعش اور الکتر جی کے درمیان کاروباری تعلق کے حوالے سے صدر بشار الاسد کس حد تک آگاہی رکھتے تھے۔
تجزیہ کاروں نے حسام الکترجی کے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ گندم کے کاروبار پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف تو شامی صدر بشار الاسد مغربی اقوام پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے اس جہادی تنظیم کی اسمگلنگ کی سرگرمیوں پر آنکھ بند رکھی ہوئی ہے تو دوسری جانب اُن کی حامی و حلیف پارلیمنٹ کا ایک رکن خاموشی کے ساتھ جہادی تنظیم کی قائم کردہ انتظامیہ اور کسانوں کے ساتھ کاروبار کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔
مہاجرین کی کہانی، ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر اکی کاؤرِس میکی نے برلن فلم فیسٹیول میں اس فلم پر سلور بیئر حاصل کیا تھا۔ اب یہ فلم جرمن سینما گھروں میں ریلیز کی جا رہی ہے۔
تصویر: Sputnik Oy
دو افراد ایک فلم
ہدایت کار کاؤرِس میکی کی فلمیں چبھنے والے کرداروں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس تازہ فلم میں وہ ایک بار پھر دو زبردست کردار تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک شامی مہاجر خالد علی کا کردار ہے، جسے شیروان حاجی (بائیں جانب) نے ادا کیا اور دوسرا والڈیمار وِکسٹروم کا کردار ہے، جسے زاکاری کوسمانین نے نبھایا۔
تصویر: Sputnik Oy
کامیاب فلم ساز
فروری 2017 میں 67ویں برلن فلم فیسٹیول میں اس فنِش فلم ساز کو ’’دا ادر سائیڈ آف ہوپ‘‘ یا ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘ پر سلور بیئر ایوارڈ ملا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/B. Pedersen
فن لینڈ کی مہمان نوازی
اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر خطرناک راستوں سے دیگر ممالک تک پہنچنے والے مہاجرین کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اس میں مہمان نوازی کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں، جب فلم کے شامی مہاجر کردار کو ایک ریستوران میں کام کے لیے خوش آمدید کہنے والے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
مشکلات کی ترجمانی
فلم کے امید بکھیرتے رنگوں کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کے فن لینڈ میں ان تکلیف دہ تجربات کو بھی دکھایا گیا ہے، جو سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے اور فن لینڈ میں نیونازیوں کی طرف سے ایک مہاجرین کیمپ پر حملے کی صورت میں ہے۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
کاؤرِس میکی کا اسٹائل
اس فلم میں ہدایت کار کاؤرِس میکی کا روایتی رنگ نظر آتا ہے، جو فلم میں سنیما کی تاریخ کے حوالے، مذاق اور سنجیدگی کا امتزاج، اچھی اداکاری اور درست اور اصل موسیقی جیسے شعبوں میں مضبوطی کی صورت میں ہے۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
برلن میں تعریف
برلن فلم فیسٹیول میں یہ فلم پیش کی گئی تھی، تو اس نے ناقدین اور عوام کی توجہ فوراﹰ ہی حاصل کر لی۔ یہ فلم قہقہوں کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے مسائل اور زندگیوں کو تفصیل سے پیش کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/P. le Segretain
کاؤرِس میکی کی گزشتہ فلم
کاؤرِس میکی نے مہاجرت ہی کے موضوع پر اس سے قبل بھی فلم بنائی تھی۔ اس وقت یورپ کو مشرقِ وسطیٰ سے مہاجرین کے اتنے بڑے بہاؤ کا سامنا نہیں تھا۔ سن 2011ء میں کاؤرِس میکی نے اپنی فلم ’لے ہاورے‘ نمائش کے لیے پیش کی تھی۔ اس فلم میں افریقہ سے ہجرت کرنے والے ایک لکھاری کی کہانی پیش کی گئی تھی، جو یورپ پہنچا اور موچی کا کام شروع کیا۔
تصویر: Sputnik Oy/Marja-Leena Hukkanen
7 تصاویر1 | 7
دیگر چند مبصرین کے مطابق ایران نواز شامی حکومت کے ایک اہم شخصیت کے سخت سنی عقیدے کی جہادی تنظیم کے ساتھ کاروباری قربت حیران کن اور دو رخی حکومتی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے حسام الکترجی کے دفتر سے کم از کھ چھ مرتبہ رابطہ کیا تھا مگر اس کاروبار پر کوئی بڑا ردعمل نہیں دیا گیا۔ کافی تگ و دو کے بعد اُن کے دفتر کے مینیجر محمد کسب نے اس کاروباری سرگرمی کی تصدیق کی۔
انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ انتہائی مشکل حالات میں کیا جانے والا کام تھا۔ کسب نے اس سے زیادہ تفصیل فراہم کرنے سے گریز کیا۔