شامی یونیورسٹوں میں نقاب پر پابندی
20 جولائی 2010شامی وزارت تعلیم کے ایک ترجمان کے مطابق اس فیصلے سے اس ملک کو ایک سیکولر مسلم ریاست کی شناخت دینے میں مدد ملے گی۔ اس پابندی کا اطلاق تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں پر ہوگا۔ تاہم یہ قانون شامی خواتین کی طرف سے روزمرہ زندگی میں عمومی طور پر استعمال کئے جانے والے چہرے کے نقاب پر اثرانداز نہیں ہوگا۔
شام میں، جس کا سرکاری نام الجمہوریہ العربیہ السوریہ ہے، چہرے کا نقاب بہت زیادہ عام نہیں ہے۔ تاہم شامی میڈیا کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران نوجوان خواتین میں چہرے کو نقاب سے ڈھانپنے کے رجحان میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاص طور سے پرائمری اسکول کی سطح پر استانیاں بہت شوق سے نقاب لیتی دکھائی دیں۔ شام کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وزیر ڈاکٹر غیث برکت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’نقاب علمی ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دوسرے یہ کہ طالبات کو انتہا پسندانہ رسم و رواج سے محفوظ رکھا جانا چاہئے۔‘ ڈاکٹر غیث نے تاہم کہا ہے کہ پابندی محض چہرہ ڈھانپنے پر لگائی گئی ہے۔ ہیڈ اسکارفس پہننے پر کوئی ممانعت نہیں ہوگی۔
شامی صدر بشار الاسد نے بھی اپنے ملک کی غیر مذہبی یا سیکولر اقدار کو مضبوط تر بنانے پر زور دیا ہے۔
شامی صدر کے بقول ’ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنے ملک کو محفوظ بنانا ہے۔ ہمیں غیر متحرک نہیں ہونا چاہئے۔ اہم معاملات میں مداخلت ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج مشرق وسطٰی میں پائی جانے والی انتہا پسندی ہے‘۔
شام کے اعلٰی تعلیمی اداروں کے وزیر کے اس فیصلے کے تحت آئندہ سمیسٹر سے یونیورسٹی کی طالبات چہرے پر نقاب نہیں پہن سکیں گی۔ گزشتہ ہفتے شام کے اسکولوں میں کام کرنے والی 1200 نقاب پوش ٹیچرز کو اسکولوں سے ہٹا کر مختلف اداروں میں انتظامی ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق دمشق میں ملکی حکام نے ایسا اس لئے کیا کہ اسکولوں میں درس کے دوران کسی قسم کے انتہا پسندانہ اسلامی نظریات کی تدریس کے امکانات باقی نہ رہیں۔ شامی صدر بشار الاسد اپنے ملک میں پائے جانے والے انتہا پسند عناصر اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کے درمیان فرق کو سمجھنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہوئے کہتے ہیں ’ انتہا پسند مذہب کی آڑ میں لوگوں کو اپنی طرف بلانے اور اپنا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ تاثر ضرور دیتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ مذہب کے لئے کر رہے ہیں مگر میرے خیال میں یہ اُن کی جہالت کا ثبوت ہوتا ہے۔ ایسے انتہا پسند ہر مذہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام ہو یہودیت یا مسیحیت‘۔
کئی سالوں سے شامی حکومت ملک میں اسلامی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے عسکری سطح پر بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ 80 کے عشرے میں ایک مقامی انتہا پسند مزاحمتی تحریک کو حکومت نے بڑے خونریز انداز میں کچل دیا تھا۔ صدر بشار الاسد کو محض مسلم انتہا پسندوں ہی سے نمٹنا نہیں پڑ رہا بلکہ اُنہیں کرد باغیوں کی تنظیم ’ پی کے کے‘ کی بپا کی ہوئی شورش کا بھی سامنا ہے۔ عسکریت پسند کرد اقلیتی باشندوں کی یہ تنظیم شام اور ترکی کے مشترکہ عملداری والے سرحدی علاقوں میں خاص طور پر سر گرم ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفٰی
ادارت: مقبول ملک