1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام افغانستان سے زيادہ محفوظ ملک ہے، جرمن سياسی جماعت

13 مارچ 2018

جرمنی ميں دائيں بازو کی عواميت پسند سياسی جماعت اے ایف ڈی کے مطابق شام افغانستان سے زيادہ محفوظ ملک ہے اور اسی ليے جرمنی ميں موجود شامی پناہ گزينوں کی واپسی کی راہ ميں کوئی رکاوٹ نہيں ہونی چاہيے۔

Syrien | Flucht aus Khaldieh in Afrin
تصویر: Reuters/K. Ashawi

’جرمنی کے ليے متبادل‘ نامی اس پارٹی کے پارليمان ميں ايک اہم رکن بيرنڈ باؤمان نے اپنے ايک تازہ بيان ميں کہا ہے کہ ’اگرچہ شام ميں خانہ جنگی جاری ہے، تاہم اس وقت يہ ملک سلامتی کے لحاظ سے افغانستان سے بھی زيادہ محفوظ ہے تو يہ بات قابل فہم نہيں کہ جرمن حکام افغان مہاجرين کی ملک بدرياں تو جاری رکھے ہوئے ہيں ليکن شامی تارکين وطن کی نہيں‘۔ باؤمان نے يہ بيان دارالحکومت برلن ميں منگل تيرہ مارچ کے روز ديا۔

بيرنڈ باؤمان نے يہ بيان اپنی سياسی جماعت کے چند ارکان کی جانب سے اپنے حاليہ دورہ شام کی تفصيلات بيان کرنے کے بعد ديا۔ اے ایف ڈی کا ايک وفد پچھلے ہفتے شام کے ايک متنازعہ نجی دورے پر شام گیا تھا۔ اس دورے میں وفد کے ارکان نے صدار بشار الاسد کی حکومت کے زير انتظام چند شامی شہروں کے دورے کيے اور کچھ اعلی شامی اہلکاروں سے ملاقاتيں بھی کيں۔ شام کا دورہ کرنے والے جرمن قانون سازوں کے اس گروپ کا تعلق جرمن پارلیمان کے علاوہ نارتھ رائن ويسٹ فيليا سے بھی ہے اور ان کے دورے کا مقصد يہی تھا کہ شام ميں سلامتی کو صورتحال کا جائزہ ليا جائے تاکہ جرمنی ميں پناہ ليے ہوئے شامی تارکين وطن کی ملک بدريوں کا سلسلہ شروع کيا جائے۔

جرمنی ميں پچھلے سال ستمبر ميں ہونے والے عام انتخابات ميں اے ایف ڈی ووٹوں کے اعتبار سے تيسری سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری بھی جب کہ اس وقت يہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے۔  ’آلٹرنيٹيو فار ڈوئچلانڈ‘ کے ايک بل پر رواں ہفتے جمعے کے روز وفاقی جرمن پارليمان ميں ووٹنگ ہو گی، جس ميں جرمنی کی سرحدوں کی نگرانی بڑھانے کی تجويز دی گئی ہے۔ مجوزہ قوانين ميں يہ بھی شامل ہے کہ ڈبلن ضوابط کے تحت جرمن سرحدوں سے تارکين وطن کو ان ملکوں کی طرف روانہ کر ديا جائے، جہاں وہ سب سے پہلے یورپی یونین کی سرحد میں داخل ہوئے تھے۔

مشرقی غوطہ میں مزید تیس روز تک فائربندی کے مطالبے کی تجویز

01:58

This browser does not support the video element.

ع س / ش ح، ڈی پی اے

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں