اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر نِکی ہیلی کے مطابق انہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے باز رہے، ورنہ سمجھ لے کہ امریکی فورسز دوبارہ کارروائی کے لیے ’تیار‘ ہیں۔
اشتہار
شام میں امریکا، برطانیہ اور فرانس کے فضائی حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی مذمتی قرارداد مسترد کر دی گئی ہے۔ سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نِکی ہیلی نے کہا کہ شامی حکومت نے اگر دوبارہ عام شہریوں کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا، تو اس کے خلاف دوبارہ کارروائی کی جائے گی۔
شام میں کیمیائی حملے، کب اور کہاں
شام میں گزشتہ آٹھ سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران اس ملک میں کئی بار کیمیائی حملے کیے گئے ہیں۔ اب تک اس ملک میں ایسے بڑے حملے کیمیائی حملےکب ہوئے، جانتے ہیں اس تصویری گیلری میں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/M. Abdullah
19 مارچ 2013ء
حکومت کے زیر کنٹرول علاقے خان الاصل میں اعصاب شکن گیس کے حملے میں ایک درجن سے زائد فوجیوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کا ذمہ دار کون تھا، اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا کیونکہ حکومت اور باغی دونوں اس حملے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
21 اگست 2013ء
دمشق کے قریب باغیوں کے زیر قبضہ علاقے غوطہ میں ہوئے ایک کیمیائی حملے میں اطلاعات کے مطابق 14 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture alliance/AA/I. Ebu Leys
25 اگست ء2013
غوطہ میں ہوئے مبینہ طور پر ہوئے کیمیائی حملے کا الزام حکومت پر عائد کیا گیا جس کے جواب میں شامی حکومت نے حملے کی تحقیقات کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو اجازت دینے کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Safarjalani
27 ستمبر 2013ء
اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے زخیرے کو تلف کرنے حکم دیا اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر ان احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Emmert
6 اکتوبر 2013ء
کیمیائی ہتھیاروں کی مذاحمت کار تنظیم ) او پی سی ڈبلیو( اور اقوام متحدہ کی ٹیم کے مطابق شام نے اپنے کیمیکل ہتھیار تلف کرنا شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ANP/dpa/E. Daniels
23 جون 2014ء
او پی سی ڈبلیو کے مشن نے دعویٰ کیا کہ شام سے مکمل طور پر کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
10 ستمبر 2014ء
او پی سی ڈبلیو کے مطابق اس برس کے آغاز میں ملک کے شمال مغربی صوبے ادلب میں ہوئے کیمیائی حملے میں کلورین استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dirani
3 مارچ 2017ء
او پی سی ڈبلیو کے مطابق وہ 2017ء کی ابتدا سے مبینہ طور پرکیے گئے زہریلی گیسوں کے آٹھ حملوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Badra
4 مارچ 2017ء
انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ادلب صوبے میں باغیوں کے زیر قبضہ ایک علاقے پر ایک مرتبہ پھر مبینہ طور پرکیمیائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 88 افراد ہلاک ہوئے
تصویر: picture-alliance/abaca/S. Mahmud Leyla
30 جون 2017ء
او پی سی ڈبلیو نے اس بات کی تصدیق کی کہ چار اپریل کو ادلب میں کیا گیا حملہ کیمیائی نوعیت کا تھا تاہم یہ تعین نہیں کیا جا سکا کہ اس کا اصل ذمہ دار کون تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys
7 اپریل 2018ء
دمشق کے قریب واقع علاقے دوما میں کیے گئے حملے کے بارے میں یہ ہی شکوک ہیں کہ یہ کلورین کیمیکل کا حملہ تھا جس کے نتیجے میں کئی درجن افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب شامی حکومت کے مطابق یہ حملہ کیمیائی نہیں تھا۔
مغربی طاقتوں نے ہفتے کے روز شامی دارالحکومت دمشق اور حمص میں تین شامی حکومتی تنصیبات پر میزائل حملوں کو خوش آئند قرار دیا ہے، تاہم کہا جا رہا ہے کہ ان حملوں سے شامی تنازعے میں حکومتی فورسز کی پیش قدمی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق کے ضلعے برضح اور حمص کے قریب واقع دو حکومتی تنصیبات پر مجموعی طور پر 105 میزائل داغے۔ پینٹاگون کے مطابق ان حملوں میں شامی حکومت کے زیراستعمال کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے تین مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔
شامی خانہ جنگی میں مغربی ممالک کی یہ سب سے بڑی عسکری مداخلت ہے۔ تاہم امریکا، فرانس اور برطانیہ کے مطابق ان حملوں میں فقط شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں کا مقصد اسد حکومت کا خاتمہ یا شامی تنازعے میں مداخلت نہیں تھا۔
شامی حکومت اور بشارالاسد کے اتحادی ممالک ایران اور روس نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس عسکری آپریشن کو ’کامیاب‘ قرار دیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ نے کہا، ’’مشن مکمل ہو گیا‘‘۔
شام میں تین عسکری تنصیبات پر حملے
00:55
ادھر روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف نے ان حملوں کو ’ناقابل قبول اور غیرقانونی‘ قرار دیا ہے۔ جب کہ شامی حکومت نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حوالے سے ان حملوں کو ’مغربی ممالک کا جرم اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے دمشق کے نواح میں واقع دوما کے قصبے میں مبینہ کیمیائی حملے میں چالیس عام شہری مارے گئے تھے، جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ مغربی ممالک نے اس حملے کا الزام شامی حکومت پر عائد کرتے ہوئے سخت ردعمل کا عزم ظاہر کیا تھا۔