شام، امریکی کارروائی میں خراسان گروہ کا ’فرانسیسی جہادی ہلاک‘
7 نومبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے واشنگٹن سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس تازہ کارروائی میں شام میں فعال فرانسیسی جہادی ڈیوڈ ڈورجین کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا، جو بم سازی میں ماہر تصور کیا جاتا تھا۔ شدت پسند خراسان گروہ کا سربراہ ڈیوڈ تبدیلی مذہب کے بعد مسلمان ہو گیا تھا اور وہ شام میں القاعدہ کے حامی گروہ خراسان کی سرپرستی کر رہا تھا۔
امریکی محمکہ دفاع کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ چوبیس سالہ ڈیوڈ ایک انتہائی خطرناک شخص تھا، جس سے امریکا کی سلامتی کو براہ راست خطرہ لاحق تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ واشنگٹن حکومت کالعدم خراسان گروہ کو شام و عراق میں فعال اسلامک اسٹیٹ نامی شدت پسند گروہ سے زیادہ خطرناک تصور کرتی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس اداروں کے مطابق خراسان گروہ نہ صرف امریکا بلکہ یورپی ممالک میں بھی حملوں کی منصوبہ بندی میں تھا۔ امریکی میڈیا میں ڈیوڈ ڈورجین کی ممکنہ ہلاکت کو خراسان گروہ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی اعلیٰ اہلکار کے مطابق، ’’وہ (ڈیوڈ ڈورجین) اہداف میں سے تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اسے مار دیا ہے۔‘‘ انہوں نے البتہ کہا کہ اس خبر کی تصدیق میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ شام میں امریکی فوجی تعینات نہیں ہیں، اس لیے وہاں سے درست معلومات حاصل کرنا کچھ مشکل ہے۔
23 ستمبر کے بعد شام میں فعال خراسان گروہ کے خلاف یہ دوسری کارروائی جمعرات بتاریخ چھ نومبر کو کی گئی۔ امریکی مرکزی کمان نے اس حملے کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ترک سرحد کے قریب شامی علاقے سرمدا میں اس اسلامی شدت پسند گروہ کے پانچ مختف ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں گاڑیاں اور ان کے زیراستعمال گھر بھی تھے۔
دوسری طرف سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس امریکی کارروائی میں متعدد جنگجوؤں کے ساتھ دو بچے بھی مارے گئے ہیں۔
شامی بحران چوتھے سال میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شامی صدر بشار الاسد کو ایک مسلح بغاوت کا سامنا ہے۔ جہاں اعتدال پسند اپوزیشن دھڑا صدر اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کی کوشش میں ہے، وہیں اسلامی شدت پسند بھی اسد نہ صرف اسد حکومت بلکہ اعتدال پسندوں کے خلاف انتہائی منظم ہو چکے ہیں۔