1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

شام اور عراق میں 'اسرائیلی جاسوسی مراکز' پر ایران کے حملے

16 جنوری 2024

ایران کے پاسداران انقلاب فورس نے ان حملوں سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس نے بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل کے جاسوسی مراکز اور 'خطے میں ایران مخالف دہشت گرد گروہوں ' کو نشانہ بنایا۔

ایران ماضی میں بھی عراق پر حملہ کر چکا ہے
ایران نے ماضی میں بھی عراق کے شمالی کردستان کے علاقے میں حملے اس طرح کے حملے کیے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ایرانی علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ ہی اس کے دیرینہ دشمن اسرائیل کے ایجنٹوں کے بھی استعمال میں رہا ہےتصویر: Ahsan Mohammed Ahmed Ahmed/AA/picture alliance

ایران نے پیر کو رات دیر گئے شمالی عراق کے اربیل میں امریکی قونصل خانے کے قریب اور شمالی شام میں شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ سے منسلک اہداف پر میزائل سے حملہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔

شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر مزید امریکی حملے

 اس حوالے سے پاسداران انقلاب نے اپنے ایک بیان کہا کہ اس نے اربیل میں امریکی سفارت خانے کے پاس واقع اسرائیل کے ''جاسوسی ہیڈکوارٹر کو بھی نشانہ'' بنایا۔

شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کے ٹھکانوں پر امریکی حملے

شمالی عراق کے نیم خود مختار کرد حکومت کی سکیورٹی کونسل کے ایک بیان کے مطابق اربیل میں امریکی قونصل خانے کے قریب میزائلوں کے حملے میں چار شہری ہلاک اور چھ مزید زخمی ہو گئے۔

ایران اور عراق کرد عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے پر متفق

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق عراق کی سکیورٹی اور طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ حملے میں ایک کروڑ پتی کرد تاجر پیشرو دیزائی اور ان کے خاندان کے کئی افراد ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ اس خاندان کے مکان پر کم از کم ایک راکٹ گرا، جس کی وجہ سے یہ افراد ہلاک ہو گئے۔

مشرقی شام میں متحارب غیرملکی حمایت یافتہ جنگجو کون ہیں؟

حملے سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا؟

سکیورٹی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مزید ایک راکٹ کرد انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک سینیئر اہلکار کے گھر پر جبکہ ایک دوسرا کرد انٹیلی جنس ایجنسی کے مرکز پر گرا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق اس کی وجہ سے اربیل کے ایئر پورٹ پر ٹریفک میں بھی خلل پڑا۔

عراق جنگ کے بیس سال: ایرانی مفادات کو سب سے زیادہ تحفظ ملا

ایک عراقی سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ اربیل کو ''متعدد'' بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا، تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

شمالی شام میں ایران کا یہ حملہ اس وقت ہوا ہے، جب اسلامک اسٹیٹ گروپ نے اس ماہ کے اوائل میں ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی یادگار کو نشانہ بنایا گیا تھاتصویر: Vahid Salemi/AP Photo/picture alliance

ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ امریکی قونصل خانے کے قریب کے علاقے میں  10 میزائل گرے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ میزائل ایران کے پاسداران انقلاب فورسز نے داغے تھے۔

شمالی عراق: ایران کی احتجاجی تحریک کا ایک نیا مرکز؟

ادھر ایران کے پاسداران انقلاب نے ایک بیان میں اسرائیل کی جاسوسی ایجنسی موساد کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اس نے ''بیلسٹک میزائلوں کا استعمال جاسوسی مراکز اور خطے میں جمع ہونے والے ایران مخالف دہشت گرد گروہوں کو تباہ کرنے کے لیے کیا۔''

انقلابی گارڈز نے یہ بھی کہا کہ شام میں نام نہاد اسلامی گروپ 'اسلامک اسٹیٹ سمیت' ایران میں ''دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے والوں '' کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ شمالی شام میں گرنے والے میزائلوں سے کتنا نقصان پہنچا ہے۔

حملوں پر امریکہ کا رد عمل

یہ حملے ایک ایسے وقت ہوئے ہیں، جب مشرق وسطیٰ میں جنگ کے پھیلنے اور اس میں اضافے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور امریکہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دو امریکی اہلکاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایران کے میزائل حملوں سے اربیل میں کسی بھی امریکی تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ اربیل میں ''ایران کے لاپرواہ میزائل حملوں '' کی شدید مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے

 کہا کہ ان حملوں سے عراق کے استحکام کو نقصان پہنچتا ہے۔

ایک اور امریکی دفاعی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان تفصیلات پر بات کی اور کہا کہ امریکہ نے شمالی عراق اور شمالی شام میں داغے جانے والے میزائلوں کا سراغ لگا لیا ہے اور ان حملوں سے امریکی تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچا۔

اہلکار نے یہ بھی کہا کہ ابتدائی اشارے اس بات کے ہیں کہ یہ حملے ''بغیر احتیاطی تدبیر کے کیے گئے اور اپنے ہدف کو بھی حاصل نہیں کر سکے۔ ''

حملے کا پس منظر

شمالی شام میں ایران کا یہ حملہ اس وقت ہوا ہے، جب اسلامک اسٹیٹ گروپ نے اس ماہ کے اوائل میں ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی یادگار کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

کرمان میں واقع انقلابی گارڈ جنرل قاسم سلیمانی کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران ہونے والے خودکش حملے میں کم از کم 84 افراد ہلاک اور 284  زخمی ہوئے تھے۔

گزشتہ ماہ ایران نے اسرائیل پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ اس نے دمشق کے ایک محلے پر ایک فضائی حملہ کر کے ایک اعلیٰ سطحی ایرانی جنرل سید رضی موسوی کو ہلاک کر دیا تھا۔

ایران نے ماضی میں بھی عراق کے شمالی کردستان کے علاقے میں حملے اس طرح کے حملے کیے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ایرانی علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ ہی اس کے دیرینہ دشمن اسرائیل کے ایجنٹوں کے بھی استعمال میں رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں