1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شام تو تقسیم بھی ہو چکا مگر اسد نہیں مانتے‘

عاطف توقیر3 جون 2015

شام میں عسکریت پسندوں کی تیزی سے پیش قدمی کی وجہ سے صدر بشار الاسد عسکری اعتبار سے گزشتہ چار برسوں کے مقابلے میں پہلی بار اس قدر دباؤ کا شکار ہیں۔

تصویر: SANA/Handout via Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شام کے شمال، مشرق اور جنوب میں ایک بڑا علاقہ اب یا تو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروہ النصرہ فرنٹ کے قبضے میں ہے، یا شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے کنٹرول میں۔ اب صدر اسد کی فورسز کی عمل داری صرف مغربی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور ان علاقوں کے تحفظ کو بشار الاسد کی بقا کے لیے لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔

تاریخی اور عسکری اعتبار سے انتہائی اہم شہر پالمیرا سے پسپائی اور ادلیب کا تقریباﹰ تمام صوبہ کھو دینے کے بعد بشار الاسد اپنی فورسز کو مغربی علاقوں کے گرد دفاعی پوزیشنوں پر متعین کر رہے ہیں۔ ان مغربی علاقوں میں دمشق کے علاوہ، حمص، حما اور مغربی بندرگاہ بھی شامل ہے۔

شامی فورسز باغیوں کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کر ہیں ہیں، تاہم عسکریت پسندوں کی پیش قدمی مسلسل جاری ہےتصویر: Reuters/A. Abdullah

روئٹرز نے شامی دفاعی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دمشق حکومت اس دباؤ کو محسوس کرتی ہے تاہم حکومت پُر اعتماد ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنے اہم علاقوں کا تحفظ کر لے گی۔

روئٹرز کے مطابق اسد حکومت کی عمل داری اب بھی دور دراز کے علاقوں تک قائم ہے، تاہم ایک ایک کر کے یہ علاقے باغیوں کے قبضے میں جاتے جا رہے ہیں۔ دیرالزور، حسکہ اور حلب میں شامی فوجیں بدستور تعینات رکھنے کے فیصلے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شامی حکومت اب بھی ملک بھر میں اپنی موجودگی قائم رکھنا چاہتی ہے۔ شامی حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ عملی طور پر شام تقسیم ہو چکا ہے۔

حکومت سے متعلقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر اسد پُر اعتماد ہیں کہ وہ اب بھی مستحکم ہیں اور وہ ایران سے مزید امداد کی توقع کر رہے ہیں۔ منگل کے روز ایران کی جانب سے واضح انداز میں کہا گیا تھا کہ وہ بشار الاسد کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ لبنان کا شیعہ عسکریت پسند گروہ حزب اللہ بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں بھرپور طریقے سے شام میں اپنے عسکریت پسند بھیج رہا ہے۔

صدر اسد کو یہ امید بھی ہے کہ مغربی ممالک شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے نمٹنے کے لیے بالآخر دمشق حکومت کی جانب ہی دیکھیں گے۔ روئٹزر کے مطابق اب تک مغربی ممالک کی جانب سے ایسے کوئی اشارے نہیں ملے، تاہم بشارالاسد یہی سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا کبھی نہیں چاہے گی کہ یہ پورا علاقہ جہادیوں کے قبضے میں چلا جائے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں