شام حزب اللہ کو مسلح نہ کرے، ہلیری کلنٹن
30 اپریل 2010واشنگٹن میں امریکی نژاد یہودیوں کی ایک کمیٹی سے خطاب میں ہلیری کلنٹن نے کہا کہ شام کے صدر بشارالاسد ایسے فیصلے کر رہے ہیں، جن سے مراد خطے کے لئے جنگ یا امن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ بشارالاسد ایران، حزب اللہ اور حماس کے مشوروں کی پیروی کر رہے ہیں، انہیں واشنگٹن کا مؤقف بھی سننا چاہئے تاکہ وہ اپنے فیصلوں کے نتائج سے آگاہ ہو سکیں ۔
ہلیری کلنٹن نے کہا، ’ہم ایسا اشتعال انگیز رویہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی عالمی برادری کو ایسا کرنا چاہئے۔‘
انہوں نے عرب ممالک پر بھی زور دیا کہ مشرق وسطیٰ امن عمل کے لئے مزید کوششیں کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو بھی مقبوضہ علاقے میں تعمیراتی عمل روک دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یروشلم حکومت غزہ کے شہریوں کی ضرورتوں کا خیال رکھے اور ریاست کے لئے ضروری اداروں کے قیام میں فلسطینی اتھارٹی کی مدد کرے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن انتظامیہ عرب ریاستوں کی جانب سے امن کے لئے یکطرفہ کوششیں نہیں چاہتی۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی پر بھی زور دیا کہ مغربی کنارے میں اسرائیل مخالف انتہاپسندی کو روکنے اور سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں جاری رکھے۔ واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔تاہم اسے محض مغربی کنارے کا کنٹرول حاصل ہے جبکہ غزہ پٹی کا انتظام انتہاپسند جماعت حماس کے پاس ہے۔
مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حوالے سے عرب ممالک کو کیا کرنا چاہئے، اس حوالے سے ہلیری کلنٹن سے اس مرتبہ ماضی کی نسبت زیادہ واضح بیان دیا۔ انہوں نے کہا، ’انہیں واضح اقدامات کرنے چاہئیں، جن سے اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور ان کے اپنے لوگوں کو امن کا قیام ممکن دکھائی دے۔ انہیں یقین ہو کہ امن کے حصول کا فائدہ ہی ہوگا۔‘
ہلیری کلنٹن نے عرب ریاستوں سے یہ بھی کہا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو مزید مالی مدد فراہم کریں اور اسرائیل کے ساتھ بھی تجارت شروع یا بحال کریں تاکہ وہ خطے میں تنہا نہ رہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلیم کے میدان میں بھی تعاون ہونا چاہئے جبکہ یہ ریاستیں اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت بھی دیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ فلسطینی اتھارٹی کا سب سے بڑا ڈونر ہے اور یوں واشنگٹن انتظامیہ نے اس حوالے سے اپنا کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے اس تناظر میں یورپی ممالک کے کردار کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ عرب ممالک کو ان ذمہ داریوں کا بڑا حصہ اٹھانا چاہئے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: شادی خان سیف