1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: حَلب کی جنگ، متضاد دعوے

9 اگست 2012

شام کی سب سے بڑے شہر حَلب پر کنٹرول کی جنگ میں بدھ کے روز شدت پیدا ہو گئی۔ ایک طرف حکومتی فوج نے پیش قدمی کا دعویٰ کیا ہے تو دوسری طرف باغیوں نےحکومتی فوج کے حملے کو پسپا کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تصویر: Reuters

عرب ملک شام کے سب سے گنجان آباد شہر پر تین ہفتوں سے چھائے جنگ کے بادل بدھ کے روز سے اور گہرے ہو گئے ہیں۔ حکومتی فوج نے اپنے ملک کے اندر باغی لشکریوں کے خلاف سب سے بڑا زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ اسد حکومت کی فوج نے بعض حصوں میں اپنی پیش قدمی کا دعویٰ کیا ہے۔ بدھ کی شام فریقین نے اپنی اپنی کامیابیوں کے اعلانات کیے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں شام میں حَلب کی جنگ میں فتح بشار الاسد کی حکومت کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس میں کامیابی سے اسد حکومت کا مورال بلند ہو سکتا ہے۔

حَلب شہر کی سیٹلائٹ پکچر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ریلیز کی گئیتصویر: picture-alliance/dpa

شام کی اقتصادیات میں حَلب شہر کا ایک انتہائی اہم اور کلیدی کردار ہے۔ سترہ ماہ کی خونی اور مسلح تحریک کے دوران اس وقت اسد حکومت کو سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کا قوی امکان ہے کہ انجام کار اسد حکومت حَلب کی جنگ جیت جائے گی لیکن اس جنگ کی طوالت سے اسد حکومت کا کھوکھلا پن بھی ظاہر ہوگیا ہے۔ تین ہفتوں سے جدید اسلحے سے لیس فوجیوں کو پرانے ہتھیاروں سے لیس باغی روکے ہوئے ہیں۔ سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق حکومتی فوج نے باغیوں کو پسپا کرنا شروع کردیا ہے۔ دوسری جانب حَلب کے دروازہ کی شہرت رکھنے والے علاقے صلاح الدین سے باغیوں کے ایک نمائندے ابو محمد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں حکومتی فوج نے پوزیشن ضرور سنبھال رکھی ہے اور لڑائی بھی جاری ہے لیکن حکومتی فوج تاحال صلاح الدین کے علاقے میں داخل ہونے سے قاصر ہے اور اس کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔

حَلب میں تباہی کے بعد لوگ امدادی عمل میں مصروف ہیںتصویر: Reuters

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حَلب کی جنگ کے تناظر میں شہر کی سویلین آبادی کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے 23 جولائی سے پہلی اگست کے عرصے کی ایک سیٹلائٹ تصویر حاصل کی ہے اور اس کے مطابق حَلب شہر میں چھ سو سے زائد بم پھٹنے سے پیدا ہونے والے گڑھوں کے نشان گنے جا سکتے ہیں۔ یہ گڑھے یقینی طور پر جنگی طیاروں کی بمباری یا توپخانے کی شیلنگ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حَلب کے رہائشی علاقوں پر بھاری گولہ بارود کے استعمال کی بھی مذمت کرتے ہوئے اس عمل کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ایمنسٹی نے حلب کی موجودہ صورتحال کے لیے فریقین یعنی حکومتی فوج اور باغیوں کو برابر کا ذمہ دار ٹھرایا ہے۔

ادھر بین الاقوامی سفارتکاری کے منظر پر آج جمعرات کے روز ایرانی حکومت نے شامی حکومت کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک میٹنگ کا انتظام کر رکھا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس میٹنگ میں ایک درجن کے قریب ملکوں کے وزرا شریک ہو سکتے ہیں۔ تہران حکومت نے شریک ہونے والے ملکوں کے ناموں کا ابھی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ ایک سینئر ایرانی سفارتکار نے نیوز ایجنسی روئٹرزکو بتایا کہ تہران میں ہونے والی میٹنگ حقیقت میں شامی تنازعے کے حوالے سے درست سمت میں ایک مثبت قدم ہے۔ دوسری جانب مغربی سفارتکاروں نے ایرانی میٹنگ کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تہران حکومت کے پاس شام کے تنازعے کے حل کے حوالے سے کوئی مثبت نظریہ موجود نہیں ہے

ah/ab (Reuters)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں