1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: داخلی انتشار اور بین الاقوامی تشویش

29 اپریل 2013

دارلحکومت دمشق کے نواح میں واقع کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری سے منسلک ایک کمپلیکس کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے صدر بشار الاسد اور باغیوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔ اتوار کے روز یہ لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔

تصویر: Reuters

شام میں حکومت مخالف ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی دارلحکومت کے قریبی علاقے برزه میں جبل قاسيون کے دامن میں واقع سائنسی مطالعاتی وتحقیقی مرکز کے قریب جاری ہے۔ برزہ دارلحکومت دمشق کے قریب واقع ایک ایسا علاقہ ہے جہاں حکومتی اداروں میں کام کرنے والے بہت سے سرکاری ملازمین رہائش پذیر ہیں۔ شام میں جاری حکومت مخالف مسلح تحریک کے دوران یہ علاقہ اسد مخالف قوتوں کا مرکز تصور کیا جارہاہے۔

باغیوں کے پاس بھاری توپ خانے کی کمی ہے جس کی وجہ سے تحقیقی مرکز کا مضبوط حفاظتی حصار توڑنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے جب کہ کیمیکل کمپلیکس سے برزہ پر وقفے وقفے سے شدید گولا باری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اسرائیلی وزیر ماحولیات عامر پیریٹز نے بھی اتوار کو امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ شام میں مداخلت کرےتصویر: JM LOPEZ/AFP/Getty Images

گذشتہ ہفتے امریکی انتظامیہ کی جانب سے یہ الزام سامنے آیا تھا کہ شاید اسد حکومت نے باغیوں کے ساتھ لڑائی میں کسی موقع پر کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ ان الزامات کے بعد امریکی کانگریس نے شامی افواج کے خلاف برسر پیکار اپوزیشن فورسز کی مدد کے لیے وائٹ ہاؤس پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔

اتوار کو ریپبلکن سینیٹرز نے امریکی صدر باراک اوباما پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر شام میں مداخلت کریں۔ ان سینیٹرز نے یہ تجویز کیا ہے کہ امریکہ شام میں زمینی فوج اتارنے کی بجائے شامی ہوائی اڈوں پر میزائل حملے کرے۔

اسرائیلی وزیر ماحولیات عامر پیریٹز (Amir Peretz) نے بھی اتوار کو امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ شام میں مداخلت کرے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے اس رکن کے بقول شامی دستوں کی طرف سے کیمیاوی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال سے متعلق انٹیلیجنس رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد اب واشنگٹن کو اس تنازعے میں مداخلت کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس وزیر کا امریکا سے شام میں مداخلت کرنے کا مطالب بظاہر اسرائیل کی حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔

باغیوں کے پاس بھاری توپ خانے کی کمی ہےتصویر: Reuters

ادھر اس کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ شام سے ہمسایہ ملک اردن میں کئی میزائل گِرے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ یہ میزائل حکومتی فوج کی جانب سے داغے گئے ہیں کیونکہ اتوار کے روز حکومتی فوج نے اردن کی سرحد کے ساتنھ ساتھ قائم باغیوں کے ٹھکانوں پر زوردار شیلنگ کی تھی۔ میزائل اردن کے شمالی گاؤں ثنیبات میں گرے۔ ان میزائلوں کی وجہ سے کئی ایکڑ رقبے پر تیار فصلوں میں آگ پھیل گئی۔ اس سے قبل شامی میزائل ایک دوسرے گاؤں سما صحران میں بھی گرے تھے۔ اس گاؤں میں پانچ لاکھ شامی مہاجروں کے خیمے نصب ہیں۔ اس دوران باغیوں نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ اسد حکومت کی سرکاری ایئر فورس کے دو اعلیٰ افسران منحرف ہو کر اردن پہنچ گئے ہیں۔ یہ افسران اپنے مِگ اکیس جنگی طیارے بھی اپنے ساتھ لیکر اردن پہنچے ہیں۔

دریں اثناء شام کی صورت حال پر روس اور امریکا کی تشویش کے ساتھ عرب دنیا کے ملکوں میں بھی خاصی پریشانی پائی جاتی ہے۔ شام کی صورت حال کے تناظر میں مصری صدر محمد مُرسی نے اپنے خصوصی مشیر کو شام کے حلیف ملک ایران روانہ کیا ہے۔ مصری صدر کے امورِ خارجہ کے مشیر اعصام حداد اور ان کے چیف آف اسٹاف رفاع الطہطوی ایران کے دورے پر گئے ہیں۔ ان حکام نے تہران پہنچ کر ایرانی اہلکاروں سے ملاقاتوں کے دوران شام کی صورت حال پر گفتگو کی ہے۔ مصر، شام کے لیے پرامن سیاسی حل کا متلاشی ہیں۔ شام کے لیے مسلمان ملکوں کے خصوصی گروپ کا بھی مصر رکن ہے۔ اس گروپ کے بقیہ ملک ترکی، سعودی عرب اور ایران ہیں۔

(zb/ah(dpa,AP,Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں