شام: درعا شہر فوج کے محاصرے میں
1 مئی 2011جمعہ کے روز فوجی کارروائی کے دوران 66 افراد کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا تھا۔ ہفتہ کے روز بھی مزید سات افراد کے مارے جانے کی اطلاعات آئی ہیں۔ ان میں صرف چھ درعا میں مارے گئے۔ درعا میں ہلاک ہونے والوں میں مظاہروں کا مرکز عمری مسجد کے امام کا ستائیس سالہ بیٹا بھی شامل ہے۔ حکومتی فوج مسجد میں داخل ہو چکی ہے۔ فوج نے شہر کے قدیمی حصے پر بھی ٹینکوں سے گولہ باری کی، جو رات گئے تک جاری رہی۔ درعا شہر تقریباً فوج کے محاصرے میں ہے۔ مقامی آبادی کے مطابق شہر میں خوراک، پانی اور ادویات کی قلت پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق، شام کے صدر کو اپنی بعث پارٹی کے اراکین کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ مزید 138 افراد نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ آئندہ منگل کو شام کے کئی اہم شہروں میں حکومت مخالف ریلیوں کو نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان شہروں میں بانیاس اور حمص سمیت کئی دوسرے قصبے اور شہر شامل ہیں۔
شامی حکام نے حکومت مخالف دو عمر رسیدہ سیاسی شخصیات کو حراست میں لے لیا ہے۔ ان میں ایک 81 سالہ حسن عبدالعظیم کو سکیورٹی حکام نے دارالحکومت دمشق میں گرفتار کیا ہے۔ دوسرے 85 سالہ عمر قشاس کو حلب شہر میں حراست میں لیا گیا ہے۔ ان افراد کی گرفتاریوں کی تصدیق شام کی انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ اسی طرح حکومتی جبر کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کے جلوس میں شامل گیارہ عورتوں کو بھی حراست میں لینے کی اطلاعات ہیں۔ یہ خواتین درعا کے متاثرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کر رہی تھیں۔
دوسری جانب عرب دنیا اور مغرب میں شام حکومت کے خلاف ردعمل بڑھ رہا ہے۔ اردن میں ایک سو دانشوروں نے شامی حکومتی ایکشن کو ظالمانہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے شام میں انسانی خون بہائے جانے کے عمل پر انتہائی گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔ چھ ہفتوں پر پھیلے عوامی احتجاجات میں 560 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکہ نے شامی صدر بشار الاسد کے بھائی مہر الاسد کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مہر درعا میں تعینات چوتھے فوجی ڈویژن کے کمانڈر ہیں۔ اسی طرح یورپی یونین بھی شام کو اسلحے کی ترسیل اور فروخت پر پابندی لگانے کا ابتدائی فیصلہ کر چکی ہے۔ اب حتمی اعلان ہونا باقی ہے۔
شام میں حکومتی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ترکی نے ڈھائی سو افراد کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترک ریڈ کراس کی جانب سے ان مہاجرین کے لیے امداد بھی روانہ کردی گئی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر