1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام سے دو لاکھ سے زائد افراد کی ہجرت

Imtiaz Ahmad4 ستمبر 2012

شام میں اسد حکومت اور اس کے مخالفین کے مابین گزشتہ اٹھارہ ماہ سے مسلح لڑائی جاری ہے، جس کے نتیجے میں دو لاکھ سے زائد افراد ہجرت کر کے ترکی، اردن، عراق، لبنان اور یورپی یونین پہنچ چکے ہیں۔

تصویر: Reuters

شام سے ہجرت کرنے والے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد اس کے ہمسایہ ملکوں میں بنائے گئے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ہی مقیم ہے۔ ترکی میں ان کی تعداد 75 ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جبکہ ان میں سے کئی ہزار افراد اب یونان کے راستے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ سویڈن ترکی سے 25 سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ سویڈش حکام کے اندازوں کے مطابق رواں سال اور آئندہ برس سترہ ہزار سے زائد شامی باشندے سیاسی پناہ کی تلاش میں سویڈن پہنچ سکتے ہیں۔ جرمنی میں رواں برس کے صرف پہلے سات ماہ کے دوران 2286 شامی باشندوں نے سیاسی پناہ دیے جانے کی درخواست دی اور یہ پچھلے پورے سال کی مجموعی تعداد کے برابر ہے۔

تصویر: Reuters

شام میں خانہ جنگی کے باعث مہاجرت پر مجبور ہو جانے والے شہریوں کی مدد کے سلسلے میں وفاقی جرمن حکومت ان مہاجرین کو جرمنی میں پناہ دینے کے بارے میں ترجیحی بنیادوں پر غور نہیں کر رہی۔ تاہم جرمن اخبار فرانکفرٹر رُنڈ شاؤ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا ہے کہ یہ بات خارج از امکان بھی قرار نہیں دی جا سکتی۔

یورپی یونین کے شماریاتی ادارے یورو اسٹَیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ سمیت کئی دیگر یورپی ملکوں میں بھی سیاسی پناہ کے متلاشی شامی باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ غیر قانونی شامی تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خوف سے یونان نے بھی ترکی کے ساتھ اپنی سرحد پر حفاظتی چوکیوں اور گشت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں میں مجموعی طور پر گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران 12 ہزار سے زائد شامی باشندوں نے سیاسی پناہ کے حصول کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔

اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اگست میں ایک لاکھ شامی شہریوں نے اپنا گھر بار چھوڑتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں پناہ لی اور یہ شامی تنازعے کے آغاز سے اب تک کسی ایک مہینے میں شام سے مہاجرت کرنے والے باشندوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

ia / mm (AFP, Reuters, dpa)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں