شام سے سو سے زائد جہادی، اہل خانہ واپس کوسووو پہنچ گئے
20 اپریل 2019
کوسووو کی حکومت شام سے چارجہادیوں سمیت ایک سو سے زائد افراد کو واپس اپنے ملک لے آئی ہے۔ امریکا نے دوسرے ممالک سے کہا ہے کہ وہ کوسووو کی تقلید کریں اور اپنے اپنے جہادیوں کو واپس لیں۔
اشتہار
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے کوسوو پہنچنے والے شہریوں کی تعداد ایک سو دس بتائی گئی ہے۔ ان میں وہ چار جہادی بھی شامل ہیں، جو جنگی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے لیے شام کے عسکری گروپوں میں شامل تھے۔ کوسووو کے تین سو جہادی سن 2012 کے بعد شام پہنچے تھے اور ان میں سے ستر کی موت ہو چکی ہے۔ ابھی کوسووو کے ستاسی شہری شام میں تنازعات کے شکار علاقوں میں قید ہیں۔
کوسووو کے وزیر انصاف ابیلارد طاہری کے مطابق جہادیوں کو واپس لانے کا حساس مشن امریکی مدد و تعاون سے مکمل کیا گیا۔ اپنی پریس کانفرنس میں کوسووو کے وزیر نے امریکی مدد و تعاون کی تفصیل بیان کرنے سے گریز کیا۔ ان جہادیوں کو لانے والے ہوائی جہاز پر امریکی پرچم واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
پرشٹینا حکام کے مطابق ایک سو دس شہریوں میں چار جنگجو، چوہتر پچے اور بتیس خواتین شامل ہیں۔ دارالحکومت پرشٹینا پر اترنے والے افراد میں شامل چاروں جنگجووں کو ملکی پولیس نے فوری طور پر حراست میں لے لیا۔ پرشٹینا کے دفتر استغاثہ کے مطابق ان چاروں پر فرد جرم اگلے ایام میں عائد کر دی جائے گی اور انہیں جس فوجداری مقدمے کا سامنا ہو گا، اُس کی تفصیلات بھی جلد عام کر دی جائیں گے۔
طویل چھان بین اور ابتدائی تفتیشی عمل کے بعد بتیس خواتین اور چوہتر بچوں کو پولیس کی سخت نگرانی میں پرشٹینا کے نواح میں واقع ایک فوجی بیرک میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حکام نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان خواتین اور بچوں کو کب تک تحویل میں رکھا جائے گا۔
امریکا نے کوسووو کی حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے دوسرے ممالک سے کہا ہے کہ شام میں مقید جہادیوں کو وہ بھی اپنی تحویل میں لیں۔ پرشٹینا میں امریکی سفارت خانے کے بیان میں کوسووو حکومت کے فیصلے کو قابل تقلید قرار دیا گیا۔ کئی دوسرے بشمول یورپی ممالک ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ یہ اپنے اپنے جہادیوں کو کس حیثیت میں واپس لیں۔ ان ممالک کے داخلی سلامتی کے ادارے کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔
شام میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی خود ساختہ خلافت کے مرکز الرقہ پر امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے قبضے کے بعد اس خلافت کا ڈھانچا ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ اس کے بعد بتدریج جہادیوں کو شکست کا سامنا رہا اور باغوس کے قصبے کی شکست نے خلافت کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ داعش کے سینکڑوں غیرملکی جہادی اس وقت کرد اکثریتی سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی قید میں ہیں۔
کوسووو کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور اس نے سن 2008 میں سربیا سے علیحدہ ہو کر آزادی کا اعلان کیا تھا۔ بظاہر اس اکثریتی مسلم آبادی والے ملک کا تشخص سیکولر ہے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔