1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام سے مبصرین کی واپسی کا مطالبہ

2 جنوری 2012

عرب لیگ کی ایک مشاورتی کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ شام بھیجے جانے والے عرب مبصرین کو فوری طور پر واپس بلایا جائے۔ عرب لیگ سےکہا گیا ہےکہ اس کے مبصرین کی شام میں موجودگی سے صورتِ حال پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

تصویر: Reuters

عرب پارلیمنٹ کے اسپیکر سالم دقباسی نے عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی پر زور دیا ہےکہ وہ شام کی حکومت کی جانب سے شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں کے تناظر میں فوری طور پر عرب مبصرین کو واپس بلائیں۔

ان کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب عرب لیگ مزید مبصرین شام بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔ نئے مبصرین کی شام روانگی جمعرات کو طے ہے۔

شام کے لیے عرب لیگ کے آپریشنز کے سربراہ عدنان خضیر کا کہنا ہے: ’’سعودی عرب، بحرین اور تیونس سے مزید بیس مبصر دمشق جائیں گے۔‘‘

دقباسی نے ایک بیان میں کہا: ’’دمشق حکومت کی کارروائیاں عرب لیگ کے پروٹوکول کی واضح خلاف ورزی ہیں، جس کا مقصد شام کے شہریوں کا تحفظ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’ہم تشدد میں اضافہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، بچوں سمیت مزید لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ عرب لیگ کے مبصرین کی موجودگی میں ہو رہا ہے، جس پر عرب عوام مشتعل ہیں۔‘‘

قبل ازیں پچاس مبصر گزشتہ ہفتے پیر کو وہاں پہنچے تھے۔ ان کی شام آمد دمشق حکومت کے ساتھ عرب لیگ کے ایک معاہدے کے نتیجے میں ممکن ہوئی تھی، جس میں رہائشی علاقوں سے فوج کی واپسی، شہریوں کے خلاف تشدد روکنے اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربیتصویر: picture-alliance/dpa

چھبیس دسمبر کو شروع ہونے والا یہ مشن ایک ماہ جاری رہے گا۔ شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق مبصرین نے اتوار کو مظاہروں کے مرکز کئی علاقوں کا دورہ کیا۔

خیال رہے کہ عرب پارلیمنٹ اٹھاسی رکنی مشاورتی کمیٹی ہے، جو لیگ کے رکن بائیس ممالک کے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ہے۔

اُدھر شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے نئے سال کے پہلے دِن بھی جاری رہے۔ ان مظاہروں میں ایک بچے کی ہلاکت کی اطلاع بھی ہے، جسے سکیورٹی کے کریک ڈاؤن میں 2012ء کی پہلی ہلاکت قرار دیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں