شام، عراق جانے والے غیر ملکی جہادیوں کی تعداد تیس ہزار
27 ستمبر 2015نیو یارک سے اتوار ستائیس ستمبر کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اخبار نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ اسلام پسند جہادیوں کی صفوں میں شمولیت کے لیے جو غیر ملکی 2011ء سے آج تک شام اور عراق گئے، ان میں قریب ڈھائی سو امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق مشرق وسطیٰ میں کئی سالوں سے خونریز داخلی تنازعات کے شکار دونوں ہمسایہ ملکوں شام اور عراق پہنچنے والے جہادیوں کی تعداد کا یہ تخمینہ امریکا ہی کے ان اندازوں سے دگنا ہے، جو گزشتہ برس لگائے گئے تھے۔
اس کے علاوہ امریکی خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام اور قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں کے قابل اعتماد ذرائع سے حاصل ہونے والے یہ اعداد و شمار امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی ان شخصیات کے لیے پریشانی کا باعث بھی بنیں گے، جو جنگوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی فوجی قیادت پر یہ الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی خفیہ رپورٹوں میں شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کی طرف سے لاحق خطرات کو جان بوجھ کر اس لیے کم بتا رہی ہے کہ خود اپنی عسکری کوششوں اور ان کے نتائج کو زیادہ خوش کن اور حوصلہ افزا بنا کر پیش کر سکے۔
امریکی صدر باراک اوباما آئندہ منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب کے موقع پر نیو یارک ہی میں ایک ایسی بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت بھی کریں گے، جس میں ان ملکوں کے رہنما شریک ہوں گے جو شام، عراق اور دیگر ملکوں میں اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردی یا دوسرے عسکریت پسند گروہوں کی خونریز انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
منگل انتیس ستمبر کے روز امریکی کانگریس بھی اپنی ایک ایسی رپورٹ جاری کرنے والی ہے، جس میں شام اور عراق میں غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ متوقع طور پر اس امریکی رپورٹ میں زیادہ تاریک صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ شام اور عراق میں امریکا کی قیادت میں اتحادی ملکوں کے داعش کے خلاف فضائی حملوں کے آغاز کے ایک سال بعد بھی جہادیوں کی بھرتی یا ان ملکوں میں آمد کا بہاؤ کم نہیں ہوئے۔
اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی قیادت میں قائم مغربی ملکوں اور عرب ریاستون کے اتحاد کی طرف سے فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ امریکا کی ایک پالیسی یہ بھی رہی ہے کہ وہ شام میں ’اعتدال پسند‘ باغیوں کو عسکری تربیت دے کر ہتھیار بھی مہیا کرے تاکہ وہ جہادیوں کے خلاف لڑیں۔ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی محکمہ دفاع کے اس پروگرام کی مالیت 500 ملین ڈالر ہے۔
لیکن یہ پروگرام بھی فائدے کے بجائے پینٹاگون کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ اس لیے کہ امریکا کے تربیت یافتہ جن شامی باغیوں کو پہلی بار ہتھیار دے کر شام بھیجا گیا، ان کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان میں سے بہت سوں کو القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ نامی جہادی تنظیم نے اپنی حراست میں بھی لے لیا۔
ان باغیوں نے بعد ازاں اپنے ہتھیار اس لیے النصرہ فرنٹ کے جہادیوں کے حوالے کر دیے کہ ان کو ان عسکریت پسندوں کے زیر قبضہ علاقے سے بحفاظت گزرنے دیا جائے۔ یوں شامی باغیوں کو تربیت کے بعد دیے جانے والے امریکی اسلحے کا قریب ایک چوتھائی حصہ شام میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی مقامی شاخ کے ہاتھوں میں آ گیا۔