1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: عرب لیگ کا مبصر مشن مشکلات کا شکار

24 جنوری 2012

شام میں عرب ملکوں کی تنظیم عرب لیگ کی جانب سے بھیجے گئے مبصرین کے مشن کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ بعض عرب ملکوں نے اپنے تعینات مبصرین کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

عرب لیگ: شام کی کرسی خالیتصویر: Reuters

عرب لیگ کے مبصر مشن میں شامل خلیجی تعاون کونسل کے مبصرین کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب نے اپنے مبصرین کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب بھی خلیجی تعاون کونسل کا رکن ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خلیجی تعاون کونسل کا فیصلہ سعودی عرب کے اعلان کے بعد سامنے آ یا ہے کیونکہ کونسل میں سعودی عرب ایک بااثر ملک تصور کیا جاتا ہے۔ خلیجی تعاون کونسل کا صدر دفتر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں قائم ہے۔

اس سے قبل عرب دینا کے بعض مشاورتی اداروں نے بھی عرب لیگ کو مشورہ دیا تھا کہ اسد حکومت کے مسلسل کریک ڈاؤن کی پالیسی کے تناظر میں اسے اپنے مبصر مشن کو منسوخ کردینا چاہیے۔ عرب لیگ کی جانب سے شام میں دائمی امن کے لیے جو تجاویز پیش کی گئی تھیں، ان کو دمشق حکومت نے اپنے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ عرب لیگ کی جانب سے نئی نجاویز اتوار کو پیش کی گئی تھیں، ان میں بشار الاسد کا اقتدار سے علیحدہ ہونے کے علاوہ قومی متحدہ حکومت کا قیام بھی شامل تھا۔ مشاورتی ادارے عرب لیگ کو خبردار کر چکے تھے کہ اس کا مبصر مشن شام کی اندرونی صورت حال میں تبدیلی پیدا کرنے سے قاصر رہے گا۔

عرب لیگ کا اجلاستصویر: Reuters

دوسری جانب شامی فوج وسطی صوبے حما میں ایک مرتبہ پھر داخل ہو گئی ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے (DPA) کے مطابق فوج کی جانب سے بعض علاقوں پر بھاری شیلنگ بھی کی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق فوج نے حما شہر میں داخل ہونے والے تمام راستوں کو کنٹرول کر لیا ہے۔ فوج اپنے چیک پوائنٹس کے ذریعے متاثرہ علاقوں سے مقامی لوگوں کو فرار ہونے سے بھی روک رہی ہے۔ اسی طرح شمالی صوبے ادلِب میں ایک جنازے کے جلوس کو بھی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ جنازے کے جلوس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں