1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشام

شام: غوطہ میں کیمیائی حملے کے دس برس،’ہم نہیں بھولیں گے‘

21 اگست 2023

دس برس قبل شام کے شہر غوطہ میں زہریلی گیس کے حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ اس کا ذمہ دار شامی صدر بشار الاسد کو ٹھہراتے ہیں اور مرنے والوں کی روحیں اب بھی انصاف کی تلاش میں ہیں۔

سن 2013 کا کیمیائی حملہ
دس برس قبل شام کے شہر غوطہ میں زہریلی گیس کے حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: AMMAR AL-ARBINI/SHAAM NEWS NETWORK/AFP

21 اگست 2013 ءکے اوائل میں رونما ہونے والی یہ ہولناکی ایک دہائی بعد بھی بہت سے شامیوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ علاء مخزومی اب تیس برس کی ہو چکی ہیں۔ وہ اس خوفناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ''ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس وقت جاگ رہے تھے کیونکہ ان دنوں بہت گرمی تھی اور سویا نہیں جا رہا تھا۔ ہم اپنی چھت پر تھے اور رات سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔‘‘

رات کے تقریبا ڈھائی بجے تھے، جب غوطہ میں شامی تاریخ کا مہلک ترین کیمیائی حملہ ہوا۔ دارالحکومت دمشق کا یہ مضافاتی علاقہ اس وقت اپوزیشن کے کنٹرول میں تھا۔

علاء مخزومی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جب ہم نے دھماکوں کی آواز سنی تو ہم نے سوچا کہ یہ معمول کی گولہ باری ہے۔‘‘ مخزومی کے شوہر ایک ڈاکٹر ہیں اور وہ فوری طور پر گھر سے یہ دیکھنے کے لیے نکلے کہ آیا کسی کو مدد کی ضرورت ہے۔

مخزومی اس ناقابل فراموش رات کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ''لیکن پھر گلیوں سے پریشان کن چیخیں بلند ہونا شروع ہوئیں اور ہمارا اپنا سانس لینا مشکل ہو گیا۔ ہمارے اہلخانہ نے چہروں کو گیلے کپڑوں سے ڈھانپ لیا۔‘‘

شام میں زہریلی گیس استعمال ہوئی، مگر ذمہ دار کون؟

وہ مزید بتاتی ہیں، ''ہمیں خدشہ تھا کہ یہ کیمیائی حملہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ہمیں اس کے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں تھا لیکن ہم کھڑکیوں کے قریب ہی رہے۔‘‘

شاید گیلے کپڑے اور ٹیشوز استعمال کرنے اور تہہ خانے میں پناہ نہ لینے کا فیصلہ کرنے سے ان کی زندگیاں بچ گئیں۔ وہ بتاتی ہیں، ''عمومی طور پر لوگ معمول کی بمباری سے بچنے کے لیے نیچے تہہ خانوں میں جا کر چُھپ جاتے تھے لیکن اس بار تہہ خانے میں جانے والا ہر شخص مارا گیا۔‘‘

دس برس قبل شام کے شہر غوطہ میں زہریلی گیس کے حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: AMMAR AL-ARBINI/SHAAM NEWS NETWORK/AFP

عبدالرحمان سیفیہ، جنہوں نے اس رات مشرقی غوطہ میں پیرامیڈیک کے طور پر کام کیا، کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ انہیں کس ہتھیار سے مارا گیا ہے۔‘‘

مختلف تحقیقات اور ذرائع کے مطابق 480 سے 1500 کے درمیان افراد، جن میں سے بہت سے بچے تھے، نیند میں یا کسی اور جگہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔

یہ کیمیائی حملہ تھا

اقوام متحدہ کے مشن کی تحقیقات نے غوطہ پر حملے کے ایک ماہ بعد اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ایک کیمیائی حملہ تھا، جس میں سارین کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہ جنگوں میں استعمال ہونے والے سب سے زیادہ زہریلے کیمیکلز میں سے ایک ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا، ''ہم نے، جو ماحولیاتی، کیمیائی اور طبی نمونے اکٹھے کیے ہیں، وہ واضح اور قابلِ یقین ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے راکٹوں میں اعصابی ایجنٹ سارین کا استعمال کیا گیا تھا۔‘‘

دس برس قبل شام کے شہر غوطہ میں زہریلی گیس کے حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: AMMAR AL-ARBINI/SHAAM NEWS NETWORK/AFP

سارین ہوا سے بھاری ہوتی ہے اور نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہہ خانوں میں پناہ تلاش کرنے والے افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

لندن میں قائم ایس او اے ایس مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر لینا خطیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صدر اسد انتظار کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ دنیا آخر کار اس واقعے اور احتساب کو بھول جائے گی جبکہ عالمی برادری دوبارہ انہیں عملی طور پر شام کے جائز رہنما کے طور پر تسلیم کر لے گی۔‘‘

یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز یا ای سی ایف آر کی مشرق وسطیٰ کی محقق کیلی پیٹیلو کے مطابق فی الحال ایسا لگتا ہے کہ وقت صدر اسد کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان مبینہ جنگی جرائم نے صدر اسد کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا تھا لیکن اب عرب برادری انہیں دوبارہ قبول کر رہی ہے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو شام کے ساتھ صرف سفارتی تعلقات ہی بحال نہیں کرنے چاہییں بلکہ احتساب کا عمل بھی متوازی طور پر ہونا چاہیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق احتساب کے بغیر یہ خطرہ برقرار رہے گا کہ اس طرح کا کوئی دوسرا واقعہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب علاء مخزومی اس حملے کے دس برس بعد بھی اس ہولناکی کو فراموش نہیں کر سکیں اور یہ اب بھی ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ وہ اس حملے کے تین برس بعد ترکی آ گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہم مرنے والے بچوں کی تصاویر کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘‘

رپورٹ: جینفر ہولیز / ا ا / ک م

عمر البام نے شام کے شہر ادلب سے اس مضمون میں تعاون کیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں