شام: محصور علاقوں تک انسانی امداد کی فوری فراہمی پر اتفاق
12 فروری 2016جرمنی کے جنوبی صوبے بویریا کے دارالحکومت میونخ میں شامی رابطہ گروپ کے اجلاس میں شامی امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کے لیے امریکا، روس اور ایک درجن سے زائد دیگر اقوام نے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے عزم کا اظہار کیا تاہم بحران زدہ عرب ملک شام میں مکمل فائر بندی یا روس کی بمباری کے خاتمے پر کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے میں یہ طاقتیں ناکام رہیں۔
ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس امر کا اعتراف کیا کہ میونخ اجلاس میں سامنے آنے والے وعدوں کی حیثیت کاغذی سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیری کا کہنا تھا،’’ہمیں شام کے میدان جنگ میں آئندہ دنوں میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے، وہاں سیاسی تبدیلی کے بغیر امن کا قیام ناممکن ہے۔‘‘
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کا ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دشمنی اور جنگ کا خاتمہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور ’النصرہ فرنٹ‘ پر لاگو نہیں ہوتا۔ یہ تنظیم القاعدہ سے منسلک ہے اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں نے عراق اور شام کے زیادہ تر علاقوں کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ لاوروف کے بقول، ’’ہماری فضائی فورسز ان تنظیموں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی۔‘‘
امریکا اور یورپی اتحادیوں نے کہا ہے کہ روسی حملوں کا ہدف مغرب نواز وہ اپوزیشن گروپ بھی بنے ہیں جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس کے لیے بر سرپیکار ہیں۔
لاوروف کا کہنا ہے کہ شامی امن مذاکرات کی بحالی جلد از جلد جنیوا میں ہونی چاہیے اور ان مذاکرات میں شام کے تمام اپوزیشن گروپوں کو شرکت کرنی چاہیے۔
اُدھربرطانوی وزیر خارجہ فلپ ہمُنڈ نے کہا ہے کہ شام میں جنگ کا خاتمہ صرف اُس وقت ممکن ہے جب روس شامی فورسز کی پشت پناہی کے لیے اپوزیشن فورسز پر فضائی حملے اور اُن پر چڑھائی کا سلسلہ بند کرے۔
سفارتکاروں نے اس امر سے خبردار کیا ہے کہ روس کسی طور بھی بشارالاسد کو شامی حکومت سے برخاست کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کر رہا ہے اور وہ شامی فورسز کے ساتھ مل کر اس جنگ میں عسکری فتح کی کوشش کر رہا ہے۔
روسی وزیر اعظم دیمتری میدویدیف نے جمعرات 11 فروری کو ایک بیان میں شامی جنگ کو ایک لامتناہی تنازعے کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر بڑی طاقتیں اس پانچ سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں ناکام ہو جاتی ہیں تو یہ صورتحال ایک عالمی جنگ کی سی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ شام کا بحران چار لاکھ سے زائد انسانوں کی ہلاکت، دہشت گرد گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو مضبوط بنانے کے علاوہ دنیا میں مہاجرین کے ایک بڑے بحران کو جنم دینے کا باعث بنی ہے۔
شامی حزب اختلاف کے گروپ نے عالمی طاقتوں کی طرف سے ایک ہفتے کے دوران شام میں فائر بندی اور محصورعلاقوں میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فوری فراہمی کی منصوبہ بندی کا خیر مقدم کیا ہے تاہم اس گروپ نے اس امر پر زور دیا ہے کہ بڑی طاقتوں کے مابین اس بارے میں ہونے والے اتفاق کو جنیوا میں حکومتی نمائندوں کی بات چیت سے پہلے پہلے مؤثر بنایا جانا چاہیے۔