1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام ميں القاعدہ کا سينئر کمانڈر ابو خالد السوری ہلاک

عاصم سلیم24 فروری 2014

شامی شہر حلب ميں دو خود کش حملہ آوروں نے ايک کمپاؤنڈ ميں کارروائی کرتے ہوئے القاعدہ کے سينئر رکن ابو خالد السوری کو ہلاک کر ديا ہے۔ يہ ہلاکت خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں باغيوں کی مختلف صفوں ميں تفريق کی عکاسی کرتی ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

برطانوی دارالحکومت لندن ميں قائم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق تيئس فروری کے روز ہونے والے اس خود کش حملے ميں ابو خالد السوری کے علاوہ دو ديگر افراد بھی ہلاک ہوئے۔ آبزرويٹری کے مطابق اس کارروائی ميں ’اسلامی رياست‘ نامی تنظيم ملوث تھی۔

شامی تنازعے نے کافی پيچيدہ صورت اختيار کر لی ہےتصویر: Guillaume Briquet/AFP/Getty Images

باغيوں کے مطابق ابو خالد السوری شام ميں القاعدہ کے رہنما ايمن الظواہری کے نمائندے کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اگرچہ تاحال کسی بھی گروہ نے سلفی گروہ احرار الشام کے کمانڈر السوری کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول نہيں کی ہے تاہم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے علاوہ مقامی باغيوں نے بھی اس کارروائی کی ذمہ داری ’اسلامی رياست‘ نامی شدت پسند تنظيم پر ہی عائد کی ہے۔ اطلاعات ہيں کہ السوری نہ صرف اس گروپ کے بڑا ناقد تھا بلکہ اس کا ايسا بھی ماننا تھا يہ تنظيم شامی باغيوں کی مختلف صفوں ميں لڑائی اور اُس کے نتيجے ميں لاکھوں ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔

السوری ماضی میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے ساتھ بھی لڑ چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عراق اور افغانستان میں امریکی فورسز کے خلاف بھی لڑ چکا تھا۔ وہ شام ميں سخت گير اسلامی نظريات کے حامل گروہ احرار الشام کے شريک بانی تھا، جو اسلامک فرنٹ نامی سات گروپوں کے طاقتور اتحاد کا حصہ ہے۔

اسلامک فرنٹ کے ترجمان اکرم الحلبی نے السوری کو ’عالمی جہاد ميں ايک اہم شخصيت‘ قرار ديا ہے۔ اس کے بقول السوری کو پچھلے سال الظواہری نے يہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ شام ميں فعال القاعدہ سے منسلک دو تنظيموں، اسلامی رياست اور النصرا فرنٹ، کے مابين تنازعے کو ختم کرائے۔ الحلبی کے مطابق ابو خالد السوری نے ’اسلامی رياست‘ کو دوسرے باغی گروپوں کے ساتھ اس کے رويے کی بنا پر تنقيد کا نشانہ بنايا تھا۔ واضح رہے کہ القاعدہ اسی ماہ اپنے ايک بيان ميں ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے۔

شامی صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں شدت پسندی کے خلاف لڑ رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ابو خالد السوی، جس کا اصل نام محمد باہيہ تھا، ايک عرصے سے مغربی ممالک کی انٹيليجنس ايجنسيوں کو مطلوب تھا۔ بروکنگز دوحہ سينٹر سے تعلق رکھنے والے مبصر چالز لسٹر کا کہنا ہے کہ شام ميں السوری کی سرگرمياں امريکا اور اس کے اتحادی ممالک کے ليے باعث فکر رہی ہيں۔

شام ميں مارچ سن 2011 سے جاری مسلح حکومت مخالف تحريک ميں اب تک ايک لاکھ چاليس ہزار کے قريب افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ باغی صدر بشار الاسد کی حکومت گرانے کے ليے لڑ رہے ہيں البتہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران شامی تنازعے نے کافی پيچيدہ صورت اختيار کر لی ہے اور اب اعتدال پسند باغيوں کا کہنا ہے کہ ان کی جنگ متعدد جہادی تنظيموں کی نظر ہو گئی ہے، جو شام ميں اسلامی رياست کا قيام چاہتی ہيں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں