1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام ميں امريکا کا اگلا ہدف خام تيل کی فيلڈز

25 اکتوبر 2019

شمال مشرقی شام ميں امريکی افواج کے انخلاء کے بعد روسی اور ترک فوج نے حفاظتی چوکیاں سنبھالنا شروع کر دی ہيں جبکہ امريکی حکومت اب شام کے ايک مختلف حصے ميں خام تيل کی فيلڈز پر نگاہيں جمائے بيٹھی ہے۔

Irak | US Truppen auf Rückzug aus Syrien
تصویر: Getty Images/B. Smith

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات چوبيس اکتوبر کو ايک ٹوئيٹ کی، جس ميں انہوں نے کہا کہ انہوں نے شامی کرد ملٹری کے چيف مظلوم عابدی سے بات کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وقت آ گيا ہے کہ مقامی کرد اب آئل فيلڈز کا رخ کريں۔ ٹرمپ کا اشارہ صوبہ دير الزور کی طرف تھا۔ امريکی فوج کے کمانڈرز شام ميں اسلامک اسٹيٹ کو دوبارہ قوت پکڑنے سے روکنے کے ليے اس علاقے کی حفاظت کو کافی اہم قرار ديتے ہيں اور ان کے خيال ميں وہاں امريکی دستوں کی تعيناتی اس مقصد کے حصول ميں مددگار ثابت ہو گی۔

يہ امر اہم ہے کہ امريکی صدر ايک عرصے سے شام میں تيل کی فيلڈز کی حفاظت کا ذکر کرتے آئے ہيں۔ 'کردوں سے تيل والے علاقے کی طرف جانے‘ کے بارے ميں ان کی ٹوئيٹ پر جب وضاحت کی درخواست کی گئی، تو وائٹ ہاؤس اہلکاروں نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا۔ البتہ امريکی محکمہ دفاع کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ ايک بيان کے ذريعے مطلع کيا گيا کہ امريکی اضافی فوجی دستے شام روانہ کيے جائيں گے اور اس اقدام کا مقصد تيل کی فيلڈز کی حفاظت ہے تاکہ وہ دوبارہ داعش کے قبضے ميں نہ چلی جائيں۔ فی الحال اس بارے ميں تفصيلات جاری نہيں کی گئی ہيں کہ کتنی اور کون سی فورسز روانہ کی جائيں گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ترين بيان پر ان کے ناقدين ايک مرتبہ پھر يہ کہہ رہے ہيں کہ صدر خطے کے بارے ميں زيادہ آگاہی نہيں رکھتے۔ دہشت گرد تنظيم 'اسلامک اسٹيٹ‘ کو شکست دينے کے ليے قائم کے گئے عسکری اتحاد کے سابق خصوصی مشير بريٹ مک گرک نے ايک ٹوئيٹ ميں لکھا، ''امريکی صدر بظاہر کردوں کی وسيع تر ہجرت کا مطالبہ کر رہے ہيں اور وہ بھی ايک ريگستان ميں ايک چھوٹی سی تيل کی فيلڈ کی جانب ۔‘‘

امريکی سينيٹر لنڈسی گراہم نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ ان کی بھی يہی رائے ہے کہ امريکا شام ميں موجود  رہے۔ انہوں نے کہا کہ يہ امريکا کی قومی مفاد ميں ہو گا کہ اگر تيل کی فيلڈز کو داعش اور ايران سے بچا کر رکھا جا سکے۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں