شام ميں امريکی عسکری اتحاد جنگی جرائم کا مرتکب يا نہيں؟
5 جون 2018
خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں انسداد دہشت گردی کے ليے امريکا کی قيادت ميں عسکری اتحاد کی جانب سے کيے گئے حملوں ميں سينکڑوں شہريوں کی ہلاکت ہوئی۔ ايمنسٹی انٹرنيشنل نے ايسے حملوں کی جنگی جرائم کے تحت تحقيقات پر زور ديا ہے۔
اشتہار
ايمنسٹی انٹرنيشنل نے الزام عائد کيا ہے کہ شام ميں دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے گڑھ مانے جانے والے علاقے الرقعہ ميں مغربی ممالک کی عسکری کارروائيوں ميں سينکڑوں شہری ہلاک و ہزاروں ديگر زخمی ہوئے۔ انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے اس ادارے نے الرقعہ پر امريکی عسکری اتحاد کی کارروائيوں کی آزاد تحقيقات پر زور ديا ہے تاکہ اس بات کا تعين کيا جا سکے کہ يہ کارروائياں ’جنگی جرائم‘ کے زمرے ميں آتی ہيں يا نہيں۔ ايمنسٹی نے يہ الزام اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں عائد کيا ہے۔
الرقعہ کو اتحادی فورسز نے مقامی کرد مليشيا کی مدد سے اکتوبر سن 2017 ميں داعش کے قبضے سے آزاد کرا ليا تھا۔ اس سے قبل چھ جون تا بارہ اکتوبر الرقعہ پر سينکڑوں فضائی حملے کيے گئے تھے۔ ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مشرقی وسطی کے ليے ماہر الياس سليبہ نے اس بارے ميں کہا، ’’امريکی قيادت ميں عسکری کوليشن کے حملوں ميں سينکڑوں سويلين ہلاک اور ہزاروں ديگر زخمی ہوئے۔‘‘ سليبہ نے رپورٹ کا حوالہ ديتے ہوئے مزيد کہا کہ کوليشن فورسز کے حملے اندھا دھند انداز ميں کيے گئے اور يوں وہ غير قانونی بھی تھے اور امکاناً جنگی جرائم کے زمرے ميں آتے ہيں۔
الياس سليبہ نے مزيد کہا، ’’شہريوں کی بھاری تعداد ميں ہلاکت اور شہر ميں تباہی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات پر شکوک و شبہات اٹھتے ہيں کہ کوليشن فورسز نے اپنی کارروائيوں ميں شہريوں کی ہلاکت کو محدود رکھنے کی کوشش کی۔‘‘ ايمنسٹی کے اس اہلکار نے الزام عائد کيا کہ امريکی افواج نے گنجان آباد علاقوں ميں ايسے ہتھياروں کا استعمال کيا، جو ہدف تک پہنچنے کے معاملے ميں مکمل طور پر بھروسہ مند نہ تھے۔ ان کے بقول يہ عمل بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی ہے۔
ايمنسٹی انٹرنيشنل نے الرقعہ ميں پچھلے سال چھ جون کو کيے گئے فوجی آپريشن کے ايک سال مکمل ہونے کے موقع پر اس سال ’War of annihilation‘ کے عنوان تلے ستر صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی۔ ادارے نے داعش کے خلاف سرگرم عسکری اتحاد پر زور ديا ہے کہ وہ اس سلسلے ميں آزاد تحقيقات شروع کرائے اور متاثرين کے نقصانات کا ازالہ بھی کيا جائے۔
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter