شام ميں باغيوں کے خلاف بمباری، شديد جانی و مالی نقصانات
عاصم سلیم
6 فروری 2018
دمشق کے نواح ميں باغيوں کے زير قبضہ ايک علاقے پر صدر بشار الاسد کی حامی افواج اور روسی فورسز کی جانب سے منگل کو تازہ فضائی حملے کيے گئے۔ ان فضائی حملوں ميں وسيع تر جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہيں۔
اشتہار
شامی دارالحکومت دمشق کے نواح ميں مشرق کی طرف واقع غوطہ نامی علاقے پر روسی اور شامی لڑاکا طياروں کی بمباری کے نتيجے ميں اب تک کم از کم تينتيس افراد ہلاک اور ايک سو سے زائد زخمی ہو گئے ہيں۔ مشرقی غوطہ ميں منگل چھ فروری کو کی گئی اس تازہ کارروائیوں اور ان کے نتيجے ميں جانی نقصان کی اطلاع شامی اپوزیشن کے مبصر گروپ سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس نے دی ہے۔ قبل ازيں ہلاکتوں کی تعداد انيس بتائی گئی تھی۔
شام کے شمال مغربی صوبے ادلب ميں گزشتہ روز کی گئی فضائی بمباری ميں ہسپتالوں اور رہائشی عمارات کو نشانہ بنايا گيا تھا۔ علاوہ ازيں پير کو دمشق کے مضافاتی علاقوں ميں کی گئی بمباری ميں بھی اٹھائيس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ شامی فورسز نے گزشتہ چند دنوں ميں باغيوں کے زير قبضہ علاقوں کے خلاف کارروائی تيز کر دی ہے۔ صدر بشار الاسد کے حامی دستوں اور روسی لڑاکا طياروں کے ان حملوں ميں بالخصوص پچھلے ہفتے کے اختتام پر پيش آنے والے اس واقعے کے بعد وسعت آئی ہے، جس ميں باغيوں نے ايک روسی لڑاکا طيارہ مار گرايا تھا اور بعد ازاں اس کے پائلٹ کو بھی ہلاک کر ديا تھا۔
سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق منگل کے روز کی گئی تازہ کارروائی ميں مشرقی غوطہ کے دس مختلف مقامات کو نشانہ بنايا گيا۔ اس دوران غوطہ ميڈيا سينٹر اور ديگر اہم تنصيبات پر بمباری کی گئی۔ سرچ اينڈ ريسکيو گروپ سيريئن سول ڈيفنس، جسے ’وائٹ ہيلمٹس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے مطابق يہ غوطہ اور اس کے شہريوں کے ليے ايک اور خونريز دن ثابت ہوا۔
دريں اثناء اقوام متحدہ نے شام ميں فوری طور پر ايک ماہ کی جنگ بندی کا مطالبہ کيا ہے تاکہ متاثرين تک مدد پہنچائی جا سکے۔ ادارے نے اس بارے ميں جاری کردہ اپنے بيان ميں خبردار کيا ہے کہ ايسا نہ کرنے کی صورت ميں ہولناک نتائج برآمد ہو سکتے ہيں۔ اقوام متحدہ نے سات ايسے علاقوں کی شناخت بھی کی ہے، جہاں انسانی بنیادوں پر امداد سميت طبی ساز و سامان کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ جنگ بندی اور اجازت ملنے پر کم از کم سات لاکھ افراد تک يہ امداد پہنچانا چاہتا ہے۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔