شام سے گرفتار کيے گئے غير ملکی جنگجوؤں کی ان کے آبائی ممالک واپسی کے بارے ميں امريکی صدر کا مطالبہ يورپی حکومتوں کے ليے ايک چيلنچ کے طور پر سامنے آيا ہے۔ برسلز ميں آج وزارتی سطح کے اجلاس ميں اسی پر غور و فکر ہو رہا ہے۔
اشتہار
جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس نے کہا ہے کہ شام ميں زير حراست يورپی جہاديوں کی ان کے آبائی ممالک واپسی کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانا انتہائی مشکل دکھائی ديتا ہے۔ انہوں نے جرمن نشرياتی ادارے ’اے آر ڈی‘ کو اتوار 17 فروری کی شب ديے گئے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا کہ ايسے افراد کی واپسی اسی صورت ممکن ہے کہ جب يہ بات يقينی ہو کہ انہيں حراست ميں ہی رکھا جائے گا اور ان کے خلاف عدالتی کارروائی بھی فوراً ہی شروع ہو سکے گی۔ جرمن وزير خارجہ کے مطابق انسانی بنيادوں پر مدد کو مد نظر رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کو پہلے ہی جرمنی لايا جا چکا ہے تاہم شام سے ايسے تمام جرمن شہريوں کو لانا انتظامی طور پر مشکل عمل ہے۔
جرمن وزير خارجہ نے يہ بات امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مطالبے کے رد عمل ميں کی، جس ميں ٹرمپ نے يورپی ملکوں پر شام سے گرفتار شدہ اپنے اپنے جہادی واپس لينے کے ليے زور ديا تھا۔ جمعے کی شب اپنی ايک ٹوئيٹ ميں فرانس، جرمنی اور ديگر يورپی ممالک سے مخاطب ہو کر ٹرمپ نے لکھا تھا کہ شام ميں سيريئن ڈيموکريٹک فورسز کی حراست ميں موجود آٹھ سو کے قريب يورپی جہاديوں کو ان کے آبائی ممالک واپس ليں۔ امريکی صدر نے يہ عنديہ بھی ديا تھا کہ ايسا نہ کرنے پر ان جہاديوں کو رہا کيا جا سکتا ہے اور يہ اپنے طور پر اپنے اپنے وطن واپس جا کر سلامتی کے ليے خطرہ ثابت ہو سکتے ہيں۔
يہ معاملہ پير اٹھارہ فروری کو برسلز ميں يورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس ميں بھی زير بحث آ رہا ہے۔ اس اجلاس ميں رکن رياستوں کے وزرائے خارجہ اس معاملے کا کوئی جامع اور مشترکہ يورپی حل تلاش کرنے کی کوششوں ميں ہيں۔
دريں اثناء تازہ پيش رفت ميں فرانسيسی وزير انصاف نے سينکڑوں جہاديوں کو واپس لينے کے امريکی مطالبے کو فی الحال مسترد کر ديا ہے۔ ان کے بقول ہر ايک کيس کو انفرادی سطح پر ديکھا جائے گا اور پھر ہی اس پر فيصلہ ممکن ہو گا۔ قبل ازيں فرانسيسی وزير خارجہ بھی اسلامک اسٹيٹ کے ليے اپنے ملک سے شام اور عراق جانے والوں کو ’ملک دشمن‘ قرار دے چکے ہيں اور يہ کہہ چکے ہيں کہ ان لوگوں کو شام اور عراق ہی ميں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہيے۔
يہ امر اہم ہے کہ امريکی حمايت يافتہ سيريئن ڈيموکريٹک فوسز نے اسلامک اسٹيٹ سے وابستہ ايسے آٹھ سو مرد، چھ سو عورتيں اور بارہ سو بچے پکڑ رکھے ہيں، جن کا تعلق بيرونی ممالک سے ہے۔ يہ مرد و عورتيں داعش کے صفوں ميں شامل ہونے کی ہی غرض سے شام گئے تھے۔ جرمن حکومت کے اندازوں کے مطابق سن 2013 سے لے کر اب تک تقريباً ايک ہزار جرمن شہری شام اور عراق گئے، جن کی ايک تہائی تعداد واپس آ چکی ہے۔ اندازہ ہے کہ اب بھی تقريباً 270 جرمن شہری شام اور عراق ميں ہيں۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔