1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام ميں زير حراست يورپی جنگجوؤں کا کيا بنے گا؟

18 فروری 2019

شام سے گرفتار کيے گئے غير ملکی جنگجوؤں کی ان کے آبائی ممالک واپسی کے بارے ميں امريکی صدر کا مطالبہ يورپی حکومتوں کے ليے ايک چيلنچ کے طور پر سامنے آيا ہے۔ برسلز ميں آج وزارتی سطح کے اجلاس ميں اسی پر غور و فکر ہو رہا ہے۔

Syrien Krieg Schammar-Stamm | Reintegration ehemaliger IS-Kämpfer | Jugend & Fußball
تصویر: DW/B. Gerdziunas

جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس نے کہا ہے کہ شام ميں زير حراست يورپی جہاديوں کی ان کے آبائی ممالک واپسی کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانا انتہائی مشکل دکھائی ديتا ہے۔ انہوں نے جرمن نشرياتی ادارے ’اے آر ڈی‘ کو اتوار 17 فروری کی شب ديے گئے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا کہ ايسے افراد کی واپسی اسی صورت ممکن ہے کہ جب يہ بات يقينی ہو کہ انہيں حراست ميں ہی رکھا جائے گا اور ان کے خلاف عدالتی کارروائی بھی فوراً ہی شروع ہو سکے گی۔ جرمن وزير خارجہ کے مطابق انسانی بنيادوں پر مدد کو مد نظر رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کو پہلے ہی جرمنی لايا جا چکا ہے تاہم شام سے ايسے تمام جرمن شہريوں کو لانا انتظامی طور پر مشکل عمل ہے۔

جرمن وزير خارجہ نے يہ بات امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مطالبے کے رد عمل ميں کی، جس ميں ٹرمپ نے يورپی ملکوں پر شام سے گرفتار شدہ اپنے اپنے جہادی واپس لينے کے ليے زور ديا تھا۔ جمعے کی شب اپنی ايک ٹوئيٹ ميں فرانس، جرمنی اور ديگر يورپی ممالک سے مخاطب ہو کر ٹرمپ نے لکھا تھا کہ شام ميں سيريئن ڈيموکريٹک فورسز کی حراست ميں موجود آٹھ سو کے قريب يورپی جہاديوں کو ان کے آبائی ممالک واپس ليں۔ امريکی صدر نے يہ عنديہ بھی ديا تھا کہ ايسا نہ کرنے پر ان جہاديوں کو رہا کيا جا سکتا ہے اور يہ اپنے طور پر اپنے اپنے وطن واپس جا کر سلامتی کے ليے خطرہ ثابت ہو سکتے ہيں۔

يہ معاملہ پير اٹھارہ فروری کو برسلز ميں يورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس ميں بھی زير بحث آ رہا ہے۔ اس اجلاس ميں رکن رياستوں کے وزرائے خارجہ اس معاملے کا کوئی جامع اور مشترکہ يورپی حل تلاش کرنے کی کوششوں ميں ہيں۔

دريں اثناء تازہ پيش رفت ميں فرانسيسی وزير انصاف نے سينکڑوں جہاديوں کو واپس لينے کے امريکی مطالبے کو فی الحال مسترد کر ديا ہے۔ ان کے بقول ہر ايک کيس کو انفرادی سطح پر ديکھا جائے گا اور پھر ہی اس پر فيصلہ ممکن ہو گا۔ قبل ازيں فرانسيسی وزير خارجہ بھی اسلامک اسٹيٹ کے ليے اپنے ملک سے شام اور عراق جانے والوں کو ’ملک دشمن‘ قرار دے چکے ہيں اور يہ کہہ چکے ہيں کہ ان لوگوں کو شام اور عراق ہی ميں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہيے۔

يہ امر اہم ہے کہ امريکی حمايت يافتہ سيريئن ڈيموکريٹک فوسز نے اسلامک اسٹيٹ سے وابستہ ايسے آٹھ سو مرد، چھ سو عورتيں اور بارہ سو بچے پکڑ رکھے ہيں، جن کا تعلق بيرونی ممالک سے ہے۔ يہ مرد و عورتيں داعش کے صفوں ميں شامل ہونے کی ہی غرض سے شام گئے تھے۔ جرمن حکومت کے اندازوں کے مطابق سن 2013 سے لے کر اب تک تقريباً ايک ہزار جرمن شہری شام اور عراق گئے، جن کی ايک تہائی تعداد واپس آ چکی ہے۔ اندازہ ہے کہ اب بھی تقريباً 270 جرمن شہری شام اور عراق ميں ہيں۔

ع س / ا ب ا، نيوز ايجنسياں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں