1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام ميں عيد پر بھی مظاہرے، ہلاکتيں

30 اگست 2011

شام ميں آج منگل کوعيد الفطر کےدن ملک بھر ميں حکومت کے خلاف بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہيں۔ حکومت حسب سابق مظاہرين کے خلاف بے دردی سے طاقت استعمال کر رہی ہے۔

حمص ميں ٹينک
حمص ميں ٹينکتصویر: picture alliance/dpa

 يورپی يونين کی امور خارجہ کی نگران عہدیدار کيتھرين ايشٹن نے صدر بشار الاسد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مخالفين پر تشدد بند کر ديں۔ يونين نے شام سے تيل کی درآمدات پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

عيد الفطر کے پہلے دن شام ميں سکيورٹی فورسز نے نماز عيد کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے ہزاروں افراد پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کم از کم سات مظاہرين ہلاک ہو گئے۔ حکومت مخالف تحريک کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سکيورٹی فورسز نے جنوبی شہر درعا، وسطی شہر حمص اور دارالحکومت دمشق ميں نماز عيد کے بعد مظاہرين پر فائرنگ کی۔ درعا ميں مظاہرين کے ايک احتجاجی بينر پر لکھا تھا: ’’عيد تب ہو گی جب موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی۔‘‘

شام کی صورتحال پر قاہرہ ميں عرب ليگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاستصویر: picture-alliance/dpa

اسد حکومت کے خلاف یہ تحريک پانچ ماہ پہلے درعا کے شہر ہی سے شروع ہوئی تھی۔

مقامی رابطہ کميٹيوں کا کہنا ہے کہ آج چھ مظاہرين درعا میں اور ايک حمص ميں سکيورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ آج اسلامی مہینے شوال کے پہلے روز بہت سے شامی شہريوں نے اپنے اُن عزيزوں کی قبروں پر فاتحہ بھی پڑھی، جو پانچ ماہ سے جاری حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران اب تک ہلاک ہو چکے ہيں۔

شامی حکومت کے ایک جلاوطن ناقد اور انسانی حقوق کی قومی تنظيم کے سربراہ عمار القرابی نے کہا ہے کہ مارچ کے مہینے سے جاری عوامی مظاہروں ميں اب تک کم از کم  تین ہزار ایک سو افراد ہلاک مارے جا چکے ہیں۔ صرف کل پير کے روز مارے جانے والوں کی تعداد 18 رہی تھی۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ دمشق حکومت کی وفادار ايک ملسح مليشيا کے ارکان بھی مظاہرين پر حملے کر رہے ہیں۔

شامی حکومت نے ملک میں ميڈيا پر کئی طرح کی پابندياں لگا رکھی ہيں اور غير ملکی صحافيوں کو بھی ملک سے نکالا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عینی شاہدين کی اطلاعات کی تصديق تقريباً ناممکن ہو گئی ہے۔

حمص ميں شامی حکومت کے خلاف مظاہرہتصویر: dapd

شامی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں خونريزی کی وجہ مسلح دہشت گرد ہيں، جو اب تک پوليس اور فوج کے قریب 500 اہلکاروں کو ہلاک کر چکے ہيں۔ حکومت نے کئی سرکاری فوجيوں کے باغيوں کے ساتھ مل جانے کی بھی ترديد کی ہے۔ شام کے زيادہ تر فوجی ملکی آبادی کی سنی اکثريت سے تعلق رکھتے ہيں، جو صدر اسد کے چھوٹے بھائی ماہر کی سربراہی میں زیادہ تر اقليتی علوی فرقے کے اعلیٰ افسروں کے ماتحت ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں