شام میں ایک نئے قانون کے تحت مالک مکان کو ملکیتی کاغذات دکھانے کا پابند کر دیا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے بے شمار مہاجرین کے لیے واپس اپنے مکانات میں رہائش رکھنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
اشتہار
شام میں بشار الاسد کی حکومت نے جو قانون متعارف کرایا ہے، وہ سماجی ماہرین کے مطابق کسی بھی مکان میں سے کسی کو بے دخل کرنے کا ایک نیا انداز قرار دیا گیا ہے۔ جنگی حالات میں بے شمار لوگ اپنے ذاتی مکانوں کو چھوڑتے وقت ملکیتی کاغذات لے کر جانے سے قاصر رہے تھے اور اب واپسی پر انہیں اپنے ہی مکانات میں داخل ہونے کے لیے گم شدہ یا ضائع شدہ دستاویزات کی ضرورت ہے۔
اسد حکومت کی عملداری میں استحکام آنے کے بعد مختلف شہروں اور قصبوں کی تعمیر نو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ دمشق کے تباہ شدہ علاقوں اور نواحی بستیوں کی تعمیر نو کا کام رامی مخلوف نامی بلڈر کو تفویض کیا گیا ہے۔
مخلوف شامی صدر بشار الاسد کا کزن ہونے کے علاوہ اپنے ملک شام کے امیر ترین افراد میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اُن کی کمپنی دمشق اور نواحی علاقوں میں بارہ ہزار اعلی قسم کے اپارٹمنٹس تعمیر کرے گی۔ یہ اپارٹمنٹس، اُس علاقے میں تعمیر کیے جائیں گے، جہاں کبھی مکانات اور کم بلند عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔
اس تاراج و تباہ ہونے والے علاقے میں تعمیر کے سلسلے کے دوران رامی مخلوف اور اُن کی کمپنی کو زمین کے ملکیت کے حقوق کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہونے کا امکان تھا۔ اب ریئل اسٹیٹ یا جائیداد کی ملکیت کا نیا قانون متعارف کرا دیا گیا ہے۔
اندازوں کے مطابق محض چند سو لوگ ہوں گے جو ان تباہ شدہ علاقوں میں اپنے مکانات کی ملکیت کے مکمل کاغذات رکھتے ہیں۔ اسد حکومت نے یہ قانون نئی تعمیراتی سلسلے کے آغاز سے قبل، رواں ماہ کے اوائل میں متعارف کرایا۔
جس جس علاقے میں تعمیراتی سلسلے کا آغاز ہو گا، وہاں کے کسی مکان کی ملکیت کی اصل دستاویزات تیس ایام میں متعلقہ مجاز اتھارٹی کو پیش کرنا ہوں گی۔ آبادکاری کے اِس نئے سلسلے میں یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ رہائش اختیار کرنے والے یا مالک مکان کو پہلے سکیورٹی کلیئرنس بھی کرانا ہو گی اور اس کے بعد ہی وہ رہائش اختیار کرسکیں گے۔
اس کی وجہ سے واضح امکان سامنے آیا ہےکہ حکومت مخالف افراد کو رہائشی اجازت نامے کے ساتھ ساتھ مکان کی ملکیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔
سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئے قانون کے باعث پہلے سے بے گھر ہونے والے شامی خاندانوں میں مزید محرومی اور غربت بڑھ جائے گی کیونکہ نئے مکانات کے کرائے بھی زیادہ ہوں گے اور ابھی شام کے علاقوں میں اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی میں وقت بھی درکار ہے۔
شام میں حملے کیسے کیے گئے؟
امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر دمشق کے نواحی قصبے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر فضائی حملے کیے۔ اس پورے معاملے کو تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
کیمیائی ہتھیاروں کے مراکز پر حملے
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق اور حمص شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کے حکومتی مراکز کو نشانہ بنایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
برطانوی لڑاکا طیارے ٹورناڈو
امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائلوں کے علاوہ لڑاکا طیاروں نے بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ حکام کے مطابق اس پورے مشن میں شریک تمام طیارے اپنی کارروائیاں انجام دینے کے بعد بہ حفاظت لوٹ آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی حملے پر سخت ردعمل
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے دوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا موثر جواب دیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے حملے نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی ہتھیاروں کا تحقیقی مرکز تباہ
یہ تصویر دمشق کے نواح میں قائم اس تحقیقی مرکز کی ہے، جہاں امریکی حکام کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تحقیق جاری تھی۔ اس عمارت پر کئی میزائل لگے اور یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا
امریکی حکام کے مطابق ان حملوں میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد شامی حکومت گرانا نہیں بلکہ اس کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت پر وار کرنا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
سلامتی کونسل منقسم
ان حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں روس کی جانب سے ان حملوں کی مذمت سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ شام کے موضوع پر سلامتی کونسل میں پائی جانے والی تقسیم نہایت واضح ہے۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Muzi
تحمل سے کام لینے کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے دوما میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شامی تنازعے کا واحد حل سیاسی مذاکرات سے ممکن ہے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
روس کی برہمی
شام پر امریکی، فرانسیسی اور برطانوی حملوں پر روس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل‘ قبول قرار دیا۔ اس سے قبل روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر شام میں تعینات کوئی روسی فوجی ان حملوں کا نشانہ بنا، تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
جرمنی عسکری کارروائی کا حصہ نہیں بنا
جرمن حکومت نے شام میں عسکری کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تاہم کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی یہ کارروائی قابل فہم ہے۔ جرمنی اس سے قبل عراق جنگ میں بھی عسکری طور پر شامل نہیں ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappe
امریکی فورسز تیار ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں شامی فورسز نے دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو امریکی فورسز دوبارہ کارروائی کے لیے ہردم تیار ہوں گی۔