شام میں ’اسرائیلی حملہ‘، حزب اللہ کا کمانڈر سمیر قنطار ہلاک
20 دسمبر 2015لبنانی حزب اللہ شیعہ ملیشیا اور دمشق حکومت کے کچھ حامیوں کا کہنا ہے سمیر قنطار کی ہلاکت کا سبب اسرائیلی فضائیہ کا حملہ بنا ہے۔ تاہم دمشق حکومت نے اسے ایک دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا ہے، جس میں اسرائیل کو کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
شام میں سرکردہ لبنانی جنگجو سمیر قنطار کی ہلاکت کو اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر نے خوش آئند قرار دیا ہے تاہم انہوں نے ان الزامات کی تصدیق نہیں کی کہ قنظار کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملہ اسرائیلی فوج کی طرف سے کیا گیا تھا۔ حزب اللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے اسرائیلی فوج کا ہاتھ ہے۔ تاہم اس شیعہ ملیشیا نے اس بارے میں زیادہ تفصیلات عام نہیں کیں۔
اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے کی ایک ڈیل میں 2008ء میں سمیر قنطار کو رہا کیا تھا۔ جب 1979ء میں اسے ایک اسرائیلی جیل میں قید کیا گیا تھا تو اس کی عمر سولہ برس تھی۔ قنطار پر چار اسرائیلیوں کے قتل کا الزام تھا۔ جب اسے رہا کیا گیا تو یہ معاملہ انتہائی متنازعہ رنگ اختیار کر گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رہائی کے بعد قنطار نے حزب اللہ کے جنگجو دھڑے کی رکنیت اختیار کر لی تھی جبکہ گزشتہ کچھ عرصے سے وہ شام میں صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے ساتھ مل کر لڑ رہا تھا۔
شام کے سرکاری میڈیا نے اتوار کے دن دمشق کے نواحی علاقے جرمانا میں ہوئے حملوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی ’دہشت گردوں‘ کی تھی۔ دمشق حکومت نے ان حملوں میں قنطار کے ہلاک ہونے کی کوئی خبر جاری نہیں کی۔ تاہم شام میں فعال صدر اسد کے حامی جنگجو گروہوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے دمشق کے رہائشی علاقے میں کیے گئے فضائی حملے میں حزب اللہ کا اہم کمانڈر قنطار مارا گیا ہے۔
اسرائیل نے شامی سرحدوں کی خلاف ورزی اور قنطار کو ہلاک کرنے کے دعوؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیلی کابینہ میں تعمیرات اور ہاؤسنگ کے وزیر Yoav Gallant نے آج اتوار کو ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پیشرفت کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے نہ تو اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی اس الزام کو مسترد کیا۔ انہوں نے البتہ کہا، ’’یہ اچھا ہے کہ سمیر قنطار اب اس دنیا کا حصہ نہیں رہا۔‘‘
ستمبر میں امریکی حکومت نے سمیر قنطار کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے قنطار کو حزب اللہ کا ایک اہم رہنما اور ترجمان قرار دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی جیل میں تین عشروں تک قید رہنے والے قنطار نے رہائی کے بعد حزب اللہ ملیشیا کے سینکڑوں جنگجوؤں کے ساتھ شام میں محاذ سنبھال لیا تھا اور اس نے ایران اور شام کی حکومتوں کے تعاون سے گولان کی پہاڑیوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔