شامی سرکاری ٹیلی وژن نے دمشق کے نواح میں واقع المزہ فوجی اڈے پر حملے کی ذمہ داری اسرائیلی فوج پر عائد کر دی ہے۔ شامی فوج نے خبردار کیا ہے کہ تل ابیب کو ’سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے شامی سرکاری ٹیلی وژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعرات کو دمشق کے نواح میں واقع المزہ نامی فوجی اڈے پر راکٹ حملے اسرائیلی فوج نے کیے ہیں۔ شامی فوج کے مطابق دمشق کے جنوب مغربی علاقے میں واقع اس فوجی اڈے پر آٹھ راکٹ حملے کیے گئے، جس کی وجہ سے اس تنصیب میں آگ لگ گئی۔
تاہم باقاعدہ فوجی بیان میں کسی کے ہلاک ہونے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے تاہم مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کارروائی میں کم از چار افراد مارے گئے ہیں۔
شامی فوج کی طرف سے تیرہ جنوری بروز جمعہ جاری کردہ ایک بیان میں اس حملے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ شامی فوج نے اس حملے کو ایک دھچکا قرار دیتے ہوئے ساتھ ہی تل ابیب کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کارروائی کے برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق دھماکے اتنے شدید تھے کہ اس کی آوازیں دمشق بھر میں سنی گئیں۔ شامی سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق گزشتہ رات گئے شمالی اسرائیل سے متعدد راکٹ فائر کیے گئے، جو المزہ فوجی بیس کے کمپاؤنڈ میں گرے۔
فوجی بیان میں مزید کہا گیا، ’’ شامی فوج اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اسرائیل کو خبردار کرتی ہے کہ ایسی کارروائیوں کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔‘‘
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
ساتھ ہی اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیاں جاری رہیں گی اور ان دہشت گردوں کو ساتھ دینے والے عناصر کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ شامی حکومت ایسے تمام گروہوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے، جو اس کے خلاف مسلح بغاوت میں شریک ہیں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ ماضی میں اسرائیلی فورسز نے شام میں تعینات لبنانی حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم گزشتہ برس نومبر میں شامی فوج نے اسرائیلی فوج پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے جنگی طیاروں نے دمشق میں میزائل حملے کیے تھے۔
دسمبر سن دو ہزار پندرہ میں مبینہ اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں شام میں حزب اللہ کا اہم کمانڈر سمیر قنطار مارا گیا تھا۔