1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں اقتدار کی تبدیلی کب آئے گی

4 اکتوبر 2011

شام کی اپوزیشن جماعتوں نے ایک قومی کونسل بناتے ہوئے اسد حکومت کے خلاف اتحاد قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس نئی قومی کونسل میں اخوان المسلمون اور کرد سیاسی جماعت سمیت کئی دوسری ملکی پارٹیوں کے رہنما بھی شریک ہوئے۔

تصویر: dapd

دریں اثناء حکومتی مخالفین  اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپیں جاری ہیں۔ شامی سکیورٹی فورسز نے ٹینکوں کی مدد سے شہر راستان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ شام میں اقتدار میں تبدیلی کب آئے گی اور ابھی تک جاری جھڑپوں میں مزید کتنے افراد مارے جائیں گے، فی الحال ان باتوں کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔

اسد حکومت کے تین ہزار مخالفین کے ہلاکت کے باوجود ابھی تک یہی تصور کیا جاتا ہے کہ کئی ماہ سے جاری مظاہرے مجموعی طور پر پرامن رہے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان مظاہروں میں مزید شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے اور اسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔

ابھی تک یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر شامی حکومت کے مخالفین کون ہیں؟ اپوزیشن مختلف حصوں میں تقسیم تھی۔ اس امر کا اندازہ لگانا مشکل ہو چکا تھا کہ اس تحریک کی اصل میں سربراہی کون کر رہا ہے؟ عرب، سنی، اسلام پسند، کرد، عیسائی، مقامی انقلابی یا پھر جلاوطن رہنما۔ تاہم اسی سوال کا جواب دینے کے لیے رواں ہفتے پیر کو شام کی ایک قومی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔

اس نئی قومی کونسل میں اخوان المسلمون اور کرد سیاسی جماعت سمیت کئی دوسری ملکی پارٹیوں کے رہنما بھی شریک ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

اس کانفرنس میں شریک تمام سیاسی رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اسد حکومت کو اب اقتدار سے رخصت ہونا چاہیے۔ ان شرکاء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ لیبیا کی طرح کسی بھی غیر ملکی کارروائی کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس بارے میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر معین ربانی کا کہنا ہے، ’’غیر ملکی حملہ کوئی حل نہیں ہے اور یہ بات غیر ملکی بھی جانتے ہیں اور اپوزیشن بھی۔ مستقل حل کے لیے آخر کار شامی باشندوں کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔‘‘

شام میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ برسر اقتدار صدر بشارالاسد کا تعلق ملک میں موجود دس فیصد علوی فرقے سے ہے۔ ملک اور فوج کے زیادہ تر بڑے عہدے بھی اسی مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہی وہ نکتہ ہے جسے ’سیاسی بارود‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بھی خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد خانہ جنگی کا آغاز بھی ممکن ہے۔

لبنان کے ماہر اقتصادیات علی یاشوئی کا کہنا ہے دمشق حکومت کے خلاف معاشی پابندیوں کے بعد شام میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا شدید خدشہ ہے اور ایسے میں مظاہرین کی تعداد اور مطالبات میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوگا۔ یاشوئی کے مطابق اسد حکومت اس وقت مظاہروں کی بجائے اقتصادی بدحالی سے زیادہ خوفزدہ ہے۔ ان کے مطابق مظاہرین اپنی منزل ضرور حاصل کریں گے لیکن اس میں ابھی وقت لگے لگا۔

رپورٹ: اولرش لائیڈ ہولڈ /  امتیاز احمد

ادارت: عصمت جبیں

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں