شام میں النصرہ فرنٹ مضبوط ہوتی ہوئی
24 مارچ 2015شامی صدر بشار الاسد کے خلاف فعال النصرہ فرنٹ ایک طرف تو اعتدال پسند باغیوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تو دوسری طرف یہ اپنی ایک خاص حکمت عملی کے تحت اقلیتی گروہوں کو اپنے ساتھ ملاتی جا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شامی خانہ جنگی میں بین الاقوامی برادری کی زیادہ تر توجہ اسلامک اسٹیٹ پر مرکوز رہی، جس کی وجہ ان جہادیوں کا بھیانک پراپیگینڈا قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم اس صورتحال میں النصرہ فرنٹ کو پنپنے کا موقع مل گیا۔
خبر رساں ادارے اے پی نے ناقدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ النصرہ فرنٹ کا اگلا محاذ اسرائیلی سرحد سے متصل گولان کے پہاڑی علاقے ہیں۔ اس اسلام پسند عسکری گروہ کے زیادہ تر ممبر ایسے شامی باشندے ہیں، جو شام میں قیام امن کے لیے صد بشار الاسد سے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ، اعتدال پسند باغیوں، النصرہ فرنٹ اور اس کے اتحادیوں کی وجہ سے شام کا تنازعہ ایک انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ مشرق وسطیٰ امور کے ڈائریکٹر فواز جرجس کے بقول، ’’بہت زیادہ امکان ہے کہ النصرہ فرنٹ شام میں آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کو شکست دے دے گی، جس سے شامی عوام کی ایک جمہوری اور کثیر الجہتی معاشرے کے قیام کی خواہشات کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘‘
یاد رہے کہ اسلامک اسٹیٹ نے ہی 2012ء میں النصرہ فرنٹ کے قیام میں مدد کی تھی۔ اس وقت ان سنی انتہا پسند جہادیوں نے القاعدہ کے حامی اس گروہ کو نہ صرف اسلحہ فراہم کیا تھا بلکہ ان کی مالیاتی اور انسانی حوالے سے بھی مدد کی تھی۔ تاہم بعد ازاں 2013ء میں ان دونوں میں نظریاتی اور حکمت عملی کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کے باعث علیحدگی ہو گئی تھی۔ ان دونوں اسلامی گروہوں کے الگ ہونے کے بعد النصرہ فرنٹ نے خاموشی کے ساتھ شام میں فعال مختلف چھوٹے باغی گروپوں کے ساتھ اتحاد بنا کر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے جدوجہد شروع کر دی تھی۔
النصرہ فرنٹ کی کامیاب پیشقدمی
حالیہ مہینوں کے دوران النصرہ فرنٹ نے ادلب صوبے میں امریکا کے حمایت یافتہ دو باغی گروپوں کو شکست دے دی تھی۔ اس صوبے کو حرکت حزم اور سیریئن انقلابی فرنٹ کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا اور انہیں امریکا کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن النصرہ فرنٹ نے سلسلہ وار جھڑپوں کے بعد انہیں پسپا کر دیا۔ اس ناکامی کے بعد حرکت حزم تحلیل ہو گئی جبکہ سیریئن انقلابی فرنٹ کے رہنما جمال معروف ترکی فرار ہو گئے۔
ایک مغربی سفارتکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ شام کے شمال مغربی علاقوں میں فعال النصرہ فرنٹ کے جنگجو اعتدال پسند باغیوں کے علاوہ دمشق حکومت کی فورسز کے خلاف بھی مؤثر کارروائی کر رہے ہیں۔ مشرق وسطی امور کے ماہر اس سفارتکار نے مزید کہا کہ ان انتہا پسندوں نے وسطی شام کے علاوہ شمال مغربی علاقوں سمیت ادلب اور حما تک کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔
ان کامیابیوں کے ساتھ النصرہ فرنٹ مقامی آبادی کے خلاف مظالم ڈھانے کے عمل میں بھی تیزی لے آئی ہے۔ جنوری میں اس گروہ نے ادلب میں ایک خاتون کو سرعام گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ جسم فروشی کرتی تھی۔ اسی طرح یہ انتہا پسند گروہ شہریوں پر مختلف قسم کے تشدد کرنے کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ لیکن النصرہ کے مظالم اسلامک اسٹیٹ کی پرتشدد کارروائیوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے منسلک فیصل عیتانی النصرہ کی پرتشدد کارروائیوں پرتبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’النصرہ فرنٹ کی طرف سے ادلب میں ایسے رویوں کی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ اس صوبے میں ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔‘‘