امریکی فورسز نے شام میں ہیلی کاپٹر حملے میں داعش کے ایک سینیئر رہنما کو ہلاک کردیا۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کا کہنا ہے کہ عبدالہادی محمود الحاجی مشرق وسطیٰ اور یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔
اشتہار
امریکی سنٹرل کمانڈ (سینٹ کوم) کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فورسز نے پیر کو علی الصبح "یک طرفہ ہیلی کاپٹر "حملہ کیا، جس میں عبدالہادی محمود الحاجی علی کو نشانہ بنایا گیا۔
بیان میں کہاگیا ہے، " 17اپریل بروز پیر کی صبح کو امریکی سینٹرل کمانڈ کی فورسز نے شام میں داعش کے ایک سینیئر رہنما عبدالہادی محمودالحاجی علی کو ہلا ک کردیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عبدالہادی محمود الحاجی علی مشرق وسطیٰ اور یورپ میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ اور ان کے خلاف یہ کارروائی داعش کی جانب سے بیرون ملک اہلکاروں کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کا انکشاف ہونے کے بعد انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر شرو ع کی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی میں داعش کے دو دیگر کارکنان بھی مارے گئے۔ تاہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ سینٹ کوم میں کارروائی کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ البتہ کہا کہ اس کارروائی کے دوران کسی شہری یا امریکی فوجی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
دو ہفتہ قبل بھی داعش کے ایک رہنما مارے گئے تھے
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا کہ اس حملے میں ترکی کی سرحد سے ملحق شام کے شہر جرابلس سے کوئی 25کلومیٹر مغرب میں واقع السویدہ گاوں میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا۔
برطانیہ سے سرگرم اس ادار ے نے کہا کہ اس حملے کے اصل ہدف کے علاوہ دو دیگر عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق امریکی فورسز نے دو ہفتے قبل بھی شام میں حملہ کرکے داعش کے ایک سینیئر رہنما خالد ایاز احمد الجبوری کو ہلاک کر دیا تھا۔
سن 2014 کے بعد سے داعش نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا تھا تاہم سن 2017کے اواخر میں اس کی شکست کے بعد سے اس کی گرفت کمزور ہوتی گئی لیکن اس کے کارکنان اب بھی شام اور عراق میں ہلاکت خیز حملے کرتے رہتے ہیں۔
سینٹ کوم کے ترجمان کرنل جوئے بوکینو نے ہیلی کاپٹر آپریشن کے بعد کہا، "ہمیں معلوم ہے کہ داعش مشرق وسطیٰ کے آگے بھی حملے کرنے کی چاہت رکھتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "پیر کے روز ہونے والی کارروائی سے خطے میں داعش کی سرگرمیوں کو خاطر خواہ دھچکا پہنچے گا لیکن حملے کرنے کی اس کی صلاحیت پوری طرح ختم نہیں ہوگی۔"
داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید