امریکہ نے شام میں دو فضائی حملوں میں دہشت گرد تنظیم ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے ایک اہم رہنما سمیت اسلحے کے ایک اسمگلر کو بھی ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔ یہ فوجی کارروائیاں شمال میں شامی حکومت کے زیر کنٹرول علاقے میں کی گئیں۔
اشتہار
امریکی فوج نے چھ اکتوبر جمعرات کے روز اعلان کیا کہ اس نے شمالی شام میں ایک غیر معمولی فوجی کارروائی میں نام نہاد اسلامی شدت پسند تنظیم ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ سے تعلق رکھنے والے تین سینیئر اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔
فضائی حملہ اور ہیلی کاپٹر کے مدد سے ہونے والے یہ حملے شام میں صدر بشار الاسد کی وفادار فورسز کے زیر قبضہ علاقوں میں اپنی نوعیت کی امریکہ کی یہ پہلی فوجی کارروائی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے اہداف سے متعلق خفیہ معلومات جمع کرنے میں 1,000 گھنٹے سے زیادہ کا وقت صرف کیا تاکہ حملے کے دوران کولیٹرل نقصان کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ ان حملوں میں شہری ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
آئی ایس کا نائب کمانڈر ہلاک
سینٹ کام کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شام کو امریکی فوج کے ایک فضائی حملے میں داعش کا ایک نائب رہنما ابو ہاشم العماوی مارا گیا۔ عالمی سطح پر عسکریت پسند ابو ہاشم العماوی کا شمار آئی ایس کے پانچ سب سے سینیئر ارکان میں ہوتا تھا۔
اسی فضائی حملے میں ابو معد القحطانی، جنہیں آئی ایس کے قیدی سے متعلق امور کا انچارج بتایا جاتا تھا، کے بھی ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ اس آپریشن کے دوران کوئی بھی امریکی فوجی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا۔
آئی ایس کا سرکردہ سمگلر بھی ہلاک
جمعرات کے روز ہی اس سے قبل سینٹ کام نے یہ اعلان کیا کہ اس نےشام کی الحسکہ گورنری میں صبح سے پہلے ہونے والے چھاپے کی ایک کارروائی میں رکّان واحد الشماری کو ہلاک کر دیا، جو ہتھیاروں اور جنگجوؤں کی اسمگلنگ میں سہولت کاری کے لیے کافی معروف تھے۔
سینٹ کام کے ترجمان کرنل جو بکینو نے ایک بیان میں کہا، ’’فورسز نے شمال مشرقی شام میں ایک چھاپہ مارا جس میں آئی ایس کے ایک سینیئر اہلکار کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘
شام کے سرکاری ٹیلیویژن نے بعد میں اطلاع دی کہ اس آپریشن میں متعدد امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں نے ملوک سرائے کے گاؤں کے آس پاس گھیرا ڈالا، جس پر اسد کی حامی ملیشیا کا کنٹرول ہے۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
15 تصاویر1 | 15
ایک مقامی رہائشی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے رہائشیوں کو گھر کے اندر رہنے کی اپیل کرنے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کیا۔ ایک اور مقامی شخص نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جسے آئی ایس کے ہتھیاروں کا سمگلر بتایا گیا اسے گاؤں کے لوگ محض ایک چرواہا سمجھتے ہیں۔
اس آپریشن کے دوران الشماری کا ایک ساتھی زخمی ہوا ہے اور دو دیگر کو امریکی فورسز نے حراست میں بھی لے لیا۔
اشتہار
روس کے ساتھ رابطے کے بغیر
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے، ایک امریکی اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ امریکہ نے ان حملوں کے لیے روس کے ساتھ فون پر کوئی رابطہ نہیں کیا۔ امریکہ اور روس شام کے ان علاقوں میں، جہاں دونوں ممالک کام کرتے ہیں، کسی بھی طرح کے ممکنہ حادثات سے بچنے کے لیے عموماً ایک مخصوص ڈی کنفلیکشن فون لائن کا استعمال کرتے رہے ہیں۔
تاہم امریکی اہلکار نے کہا کہ فون لائن استعمال نہ کرنے کا فیصلہ آپریشنل سکیورٹی کی وجہ سے کیا گیا تھا اور اس وجہ سے نہیں کہ ماسکو نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔